مولانا آزادؒ کے مزار کی زبوں حالی کیلئے ذمہ دار کون؟

0

مضمون نگار: فیروز بخت احمد

   تقریباً پانچ دہائیوں سے راقم الحروف بھارت رتن، اِمام الہند و ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور ملک کی تاریخ کے ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار کے مزار پر ان کے یومِ ولادت اور برسی پر حاضری دیتا چلا آیا ہے، صرف اس لئے نہیں کہ وہ خانوادہ آزاد کا حصہ ہے یا اس لئے کہ اس کی رگوں میں امام الہند کے بڑے بھائی، حضرت مولانا غلام یاسین ”ابو النصر آہ“ کا خون دوڑ رہا ہے، بلکہ اس لئے کہ سرزمین کی تاریخ میں مولانا آزاد جیسا رہنما آج تک نہ تو پیدا ہوا ہے اور نہ ہی شاید پیدا ہو، جس کے بارے میں انگریزوں کے کیبنیٹ مشن کے ایک ممبر سر اے وی الیگزینڈر نے انگلستان جا کر ”دی انڈیپنڈنٹ“ میں تحریر کیا کہ ہندوستان کی آزادی کے سلسلہ میں مذاکرات کے دوران پتہ چلا کہ اگر مہاتما گاندھی کا دماغ سائیکل کی رفتار سے دوڑتا ہے تو مولانا آزاد کا دِماغ ہوائی جہاز کی رفتار سے اْڑتا ہے! آزاد کو تا حیات اس بات کے قلق رہا کہ اغیار نے ان پر بھروسہ نہیں کیا اور اپنوں نے کبھی گردانا نہیں!

حال ہی میں امام الہند، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی 66ویں برسی تھی، جس کے موقع پر راقم نے آئی سی سی آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل جناب راجیو کمار سے گزارش کی کہ مزار آزاد ایک لمبے عرصے سے بے یار و مددگار، و نامراد و نا مساعد حالات سے بد حال ہے اور اسے ایک شاندار یادگار بنانے کے لئے اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں آئی سی سی آر کی جانب یا اس کی مدد سے ایک بک یادگار اسٹال تعمیر کیا جائے جس میں آزاد کے تعلق سے مختلف زبانوں میں کتابیں، پوسٹر، فوٹوگراف وغیرہ میسر ہوں، جس سے اس کی حفاظت بھی ہو جائے گی۔ مولانا آزاد کی شایان شان گوشہ قائم ہوجائے گا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل نے اس کی تعریف اور تجویز بتاتے ہوئے اس کی تائید کی اور وعدہ کیا کہ اس کام کو وہ ضرور مکمل کریں گے۔ راقم نے اس بات کا اعترف بھی کیا کہ جہاں تمام سرکاری ایجنسیوں و اداروں نے مزار آزاد کے تئیں اپنے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہیں آئی سی سی آر نے نہایت ہی مستعدی کے ساتھ آزاد کے مزار پران کے یومِ ولادت اور برسی کی تقریبات کو 1958 سے کامیابی کے ساتھ نبھایا ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج مولانا آزاد کو مکمل طور سے نہ صرف کانگریس، عام آدمی پارٹی اور مرکزی سرکار نے نظر انداز کیا ہے، بلکہ تمام مسلم طبقہ نے ان کی قدر و منزلت کو نہیں پہچانا اور پوری ملت اس صورت حال کے لئے سرکاروں سے کہیں زیادہ قصور وار ہے۔ راقم نے ایک تجویز یہ بھی رکھی ہے کہ آئی سی سی آر کے تعاون سے یہاں ثقافتی تقریبات ہوتی رہنی چاہئیں۔

آزاد مزار کی رکھوالی کرنے والے ایک مقامی باشندہ ارشد نے کہا کہ مولانا کے چاہنے والے کافی لوگ یہاں آتے ہیں، مگر کہتے ہیں کہ ویرانی کے علاوہ مزار کے اطراف اور باہر جو گندگی اور صبح سے رات تک کا بازار دیکھ کر ان کو کافی کوفت ہوتی ہے۔ اگر سرکار یہاں پارک کے کناروں پر بیٹھنے کے لئے کچھ باوقار طریقہ سے انتظام کردے تو اچھا لگے گا۔

مزارِ آزاد، جس صورت میں آج ہے، 2005 سے قبل بہت خراب تھی۔ اس احاطے میں غیر قانونی عناصر جوا کھیلتے تھے اوریہ نشہ بازوں کا مسکن تھا۔ راقم نے متواتر، 2000 سے 2005 تک مختلف سرکاری اداروں اور اس وقت کی مرکزی سرکار سے شکایت کی، اْردو، ہندی اور انگریزی زبانوں کے رسائل اور اخبارات میں مضامین کا سلسلہ چلایا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ آخر تھک ہار کر عدالت کا رخ کیا اور دہلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی معروف قانون داں، محمد اطیب صدیقی کے ذریعہ داخل کی جس میں درخواست کی گئی کہ مولانا آزاد کے مزار کو محفوظ کر کے اْس پر تختیاں نصب کی جائیں، مزار کے اطراف صفائی کرائی جائے، مزار کے اندر فواروں کو چالو کیا جائے، مزار کے اندر ایک کتاب گھر، اْردو کمپیوٹر سکھانے کا انتظام ہو، کینٹین ، عوامی سہولیات ہو اور حفاظتی عملہ تعینات کیا جائے۔ اس عرضی پر جسٹس وجیندر جین نے کہا کہ یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ مزارِ آزاد اس بدحالی کو جھیل رہا ہے جبکہ ہندوستان کی آزادی کے لئے مولانا آزاد کی قربانیاں مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو سے کہیں زیادہ تھیں۔ عدالت نے تو بخوبی مولانا ابوالکلام آزاد کو ان کا حق د یا، مگر ملک و قوم اْس کی قدر نہیں کر پائے۔ آج صبح سے رات تک آزاد مزار کے باہر بازار لگتا ہے، اس کے تمام فوارے ختم کردیئے گئے ہیں اور اس کے ارد گرد گندگی کی وجہ سے یہاں سے گزرنا مشکل ہوتا ہے۔

ہندو مسلم اتحاد کے علاوہ مولانا آزاد نے ہندوستان کو جو ثقافتی قومیت کے لئے باہمی ہم آہنگی کا فلسفہ دیا تھا، مختلف مذاہب اسی کو اپنا کر آپسی بھائی چارے کے راستے پر چل کر ساجھا وراثت اور گنگا جمنی تہذیب کو مضبوط کررہے ہیں۔

مولانا آزاد کے دِل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ اس ملک کی سب سے بڑی قوت سیکولرزم ہے ہم آہنگی ہے اور اس سلسلہ میں وہ سر سیّد احمد خاں سے اتفاق رکھتے تھے کہ ہندوستان ایک ایسی خوبصورت دلہن ہے، جس کی دو آنکھیں ہندو اور مسلم ہیں، جن کے آپسی تال میل سے ہندوستان جنت کا نظارہ بن گیا ہے۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آزاد نے آئی سی سی آر کی بنیاد ڈالی۔ اس کے ذریعے ملک اور بیرون ملک میں ثقافتی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے کلچر اور زبانوں کو بیرونِ ملک میں فروغ دینے کے لئے اس ادارہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اس ادارہ کے تعلق سے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت مولاناؒ نے اپنی ذاتی لائبریری کی سبھی کتابیں اسے ہدیہ کے طور پر پیش کر دی تھیں۔

مزید پڑھیں: دنیا کی تیسری اور افریقہ کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح

مولانا آزادؒ کے نظریات اور ہندوستان کے موجودہ حالات : ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندویؔ       

ایک مرتبہ وائسرائے نے مولانا سے ملاقات کا وقت مانگا، جو دے دیا گیا۔ اس قسم کی ملاقاتوں میں مولانا آزاد کے ساتھ ان کا مترجم بیٹھا کرتا تھا۔ جو بات مولانا کرتے، مترجم اس کا ترجمہ کرکے دوسرے کو بتاتا اور اس کا ترجمہ کر کے مولانا آزاد کو بتاتا تھا۔ کسی بات پر آزاد نے کہا کہ ترجمان نے فلاں بات صحیح نہیں بتائی تو وائسرائے نے مولانا سے کہا کہ جب وہ انگریزی زبان جانتے ہیں تو ترجمان کے ذریعہ گفتگو کیوں کر رہے ہیں۔ اس پر مولانا آزاد نے فرمایا۔”آپ پانچ ہزار میل چل کر اپنی زبان نہیں چھوڑ سکے تو میں اپنی سرزمین میں اپنی زبان کیسے چھوڑدوں!آزادجیسادمدار، دلدار، جاندار، شاندار اور سب سے زیادہ، ایماندار سیاست داں اب شاید ہی کوئی اور ہو۔
(مصنف خانوادہ مولانا آزاد کے چشم و چراغ ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS