مولانا آزاد کے صحافتی کمالات اور جنگ آزادی : فیروز بخت احمد

0

فیروز بخت احمد
مولانا ابو الکلا م آزاد شروع سے ہی ہندوستان کی آزادی اور باہمی ہم آہنگی ویگانگی کے علمبردار رہے۔ ان کے سیاسی سفر کا باقاعدہ آغاز ۱۹۱۲ء؁ میں ہوا جب انہوں نے کلکتہ سے ’’الہلال‘‘ جاری کیا۔ یہ ایک ایسا اخبار تھا کہ جس نے قومی جذبات اور سیاسی شعور کو بیدار کرکے ملک میں تہلکہ مچادیا اور ہندوستان پر قابض انگریزی ایوان حکومت میں زلزلہ پیدا کر دیا۔
’’الہلال‘‘ صرف اخبار ہی نہ تھا بلکہ انگریزی حکومت کے خلاف تحریک بھی تھی جس نے ملت کے سرد و منجمد لہو کو گرم اور رواں دواں کر دیا۔ مردہ دلوں میں نئی جان ڈال دی، مظلوموں کو آزادی کا شیدائی و فدائی بنا دیا ۔اس کی للکار اور پکار نے غلاموں کو زنجیرِ غلامی توڑنے کی توفیق دی اور شعلہ حیات بھڑکا دیا۔
جب جب جدوجہد آزادی ہند کی بات کی جائے گی تو مولانا ابو الکلام آزادؔ کے اخبار ’’الہلال‘‘کا ضرور ذکرہوگا۔ مولانا اپنے جن کمالات، خصوصیات و امتیازات کے توسط سے تمام ملک پر چھائے ہوئے تھے اور جن کی نا بغۂ روزگار شخصیت ، غیر معمولی ذہنی و دماغی قابلیت نے لوگوں کے دل و جان پر اپنے گہرے نقش چھوڑے تھے، اس کی وجہ ان کی صحافت تھی۔ صحافت کا مقصد ان کے نزدیک ذریعہ اخلاص اور بے لوثی سے ملک و ملت کی خدمت کرنا تھا۔ یہ بات صاف ہے کہ انہوں نے اسے کمائی کا ذریعہ کبھی نہیں سمجھا، ہاں مشن ضرور ما نا ۔ مولانا آزاد نے صحافت کو جو عزت و وقار عطا کیا ، اس کے لئے اردو زبان آج بھی ان کی مشکور ہے ۔ا پنی صحافتی گھن گرج سے انہوں نے غیر ملکی آمرانہ و جابرانہ قوتوں کو چیلنج کیا اور پھر انگریزی فتنہ سامانی کی دھجیاں بکھیردیں۔احمد سعید ملیح آبادی، مدیر روزنامہ ’’آزادہند‘‘ ، کلکتہ بیان کر تے ہیں : ’’جس اخبار اور رسالے کو ہاتھ لگا دیا، اسے چار چاند لگا دئے ۔ ایڈٹ کرنے کا گُر مولانا نے خود اپنے لئے وضع کیا ، ان کے سامنے اور اگر کوئی نمونہ تھا تو یہاں تو مصر اور ترکی کے اخبارات اوررسالے تھے جو مولانا کے پاس آتے تھے۔ مضامین کے انتخاب، موضوعات کے تعین، مسائل و مباحث کے بیان حتی کہ الفاظ و اصطلاحات کی ترجیحات اور املے کی پابندی پر بھی مولانا کی نظر اور گرفت رہتی تھی۔‘‘(رشید الدین خاں : ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت ص ۲۸۰ مضمون :احمد سعید ملیح آبادی)۔
حریت کے شیدائیوں، مظلوموں اور بے کسوں کی صدا کو اپنی صحافت کے ذریعہ بین الاقوامی سیاسی شعور دے کر مولانا آزاد نے معاشرہ میں ایک انقلاب پیدا برپا کر دیا۔۱۸۸۹؁ء میںمولانا نے ’’نیرنگ عالم‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ اس کے بعد۱۸۹۹ء؁ میں انہوں نے ’’المصباح ‘‘کی ادارت کی۔ان کا تعلق ۱۹۰۱ء؁ میں مولوی سید احمد حسن فتحپوری کے ’’احسن الاخبار‘‘ اور ’’تحفۂ احمدیہ‘‘ سے بھی رہا ۔’’ احسن الاخبار ‘‘کی ادارت کی بیشتر ذمہ داری مولانا ہی انجام دیتے تھے۔ وہ عربی اخباروں کے مضامین اور خبروں کے انتخاب و ترجموں کے کام بھی انجام دیتے تھے۔ پھر انہوں نے ’’لسان الصدق‘‘(۱۹۰۴ء؁)اور ’’خدنگ نظر‘‘ ،’’ایڈ ورڈ گزٹ‘‘،’’مرقع عالم‘‘، ’’البصائر‘‘، ’’مخزن‘‘، ’’الندوہ‘‘، ’’وکیل‘‘، ’’دارلسلطنت‘‘، ’’الہلال‘‘، ’’البلاغ‘‘، ’’اقدام‘‘، ’’پیغام‘‘، ’’الجامعہ‘‘، ’’پیام‘‘،’’ ثقافت الہند‘‘وغیرہ میں نہ صرف مضامین دئے بلکہ ان میں سے بہت کی ادارت بھی کی۔
’’ الہلال‘‘ مولانا آزادکی علمی ، ادبی ، دینی و سیاسی بصیرت کا نچوڑ تھا ۔ وہ ہر اعتبار سے ایک عہد آفریں جریدہ تھاکیوں کہ اس کے مقابلہ کاکو ئی بھی ہفتہ وار پرچہ اب تک نہیں نکلا تھا ۔’’الہلال‘‘ کی تعریف میں ضیاء الدین اصلاحی صاحب لکھتے ہیں : کانک شمس والملوک کواکب/ اذا طلعت لم یبد منھن کوکب(اے باد شاہ تو سورج ہے اور دوسرے سب بادشاہ ستارے ہیں/ جب سورج نکلتا ہے تو سارسے ستارے غائب ہو جاتے ہیں۔)
’’الہلال‘‘ پر مولانا آزاد کی شخصیت کی پوری چھاپ ملتی ہے۔ مولانا آزاد اپنے زمانہ کی مسلم سیاست سے بالکل بد دل تھے۔ بنگال کے انتہا پسندوں سے ان کے روابط اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سفر کی بدولت ان کا سیاسی نظریہ بدل چکا تھا۔ ان میں حب الوطنی کا گہرا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔انہیں اپنے ہم وطنوں کے مصائب سے دلی ہمدردی تھی جو غیر ملکی حکومت کے مظالم کی چکی میں پسے جارہے تھے ۔ فضا پر مایوسی کی سوگواری طاری تھی۔ ان دل شکن حالات میں ۱۳؍جولائی ۱۹۱۲ء؁ کو آزاد نے ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ لرزہ خیز آواز میں نعرئہ حق بلند کیا ۔’’الہلال ‘‘بڑی شان و شوکت سے نکلا اور نکلتے ہی ساری فضا پر چھا گیا کیوں کہا آزادکی زبان قلم، الفاظ کی تراکیب ، ندرت اور جذبات کی صداقت ہی کچھ ایسی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تعداد اشاعت ۲۶۰۰۰ تک پہونچ گئی جو اس سے قبل کسی اور اخبار کا مقدر نہ ہوئی تھی اور یہ اس حالت میں تھا کہ اس کا چندہ ۱۲روپے تھا جو اس سے قبل کسی اور اخبار نے شاید ہی طلب کیا ہو اور پایا ہو ۔
’’الہلال‘‘ اردو کا پہلا با تصویر ہفت روزہ اخبار تھا جو ترکی سے منگوائے ہوئے ٹائپ پر چھپتا تھا ۔ ’’الہلال‘‘ کی مقبولیت اور لوگوں کی اس کے لئے بے چینی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے ایک پرچہ کو لوگ حلقہ بنا کر سنتے اور مولانا کے دو لفظ اور فقروں پر سر دھنتے تھے۔
’’الہلال‘‘ کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا کیونکہ یہ لوگوں کے قلوب پر چھا گیا تھا اور اس نے فکر و نظر کے زاویے بدل دئے، نئی راہیں کھولیں اور نئے اسلوب میں نیا پیا م دیا ۔ مسلمانوں کی حمیتِ ایمانی کو للکارااور انگریزوں کی نفرت کا نقش ان کے دلوں پر بٹھا دیا ۔ بقول ممتاز اردو اادیب مالک رام ’’الہلال‘‘کا اصلی کارنامہ اس کا اسلوب تحریر تھا جس میں رنگینی، شگفتگی اور ابداع و اختراع کی جلوہ گری تھی۔ ڈاکٹر عابد رضا نے لکھا ہے کہ ’’الہلال‘‘ کی اصل خصوصیت مولانا کا مخصوص انداز تحریر تھا۔ اس میںجذباتی قسم کا اسلو ب تھا جس کی تحریرمیںخطابت کی شان نظر آتی تھی ۔ لفظوں کے تو وہ بادشاہ تھے اور محض ترتیب کے الٹ پھیر سے اپنی تحریروں میں وہ گرمی پیدا کر دیتے تھے۔’’الہلال‘‘ میں مولانا نے قرآنی آیتوں اور عربی عبارتوں کو نگینہ کی طرح جڑ دیا ہے ۔ فارسی اشعار نے بھی ان کی تحریروں کو نکھارنے اور سنوارنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔
’’الہلال‘‘ اردوصحافت کا اہم ترین سنگ میل ہے۔ یہ جریدہ تمام تر سیاست کے لئے وقف تھا۔ پھرتفسیر کلا م پاک میں اور سیاسی تعبیروں میں تاریخی عوامل و محرکات کا پورا پورا احسا س تھا۔ لہٰذا صحیح معنوں میں ’’الہلال‘‘ پہلا اخبار تھاجس نے اسلامی سیاست میں ایک ترقی پسندانہ اور آفاقی اندازاپنایا اور اس کی ترویج میں غیر معمولی کردار اپنایا ۔
بظاہر ’’الہلال ‘‘کے مخاطب اول مسلمان تھے لیکن صرف مسلمان نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کو مولانا اس لئے جگاتے رہتے تھے کہ وہ اپنے ہم وطن ہندو بھائیوں کے ساتھ مغربی استعمار کو شکست دیں اور سارے مشرق کی آزادی کے لئے فضا ہموار کریں۔ مولانا نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ’’الہلال‘‘ میں لکھا کہ ہندؤوں کے لئے آزادی کی جدوہ جہد کرنا حب الوطنی کا تقاضا ہے لیکن مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ان کاعقیدہ تھا کہ انگریزوں سے مسلمانوں کی وفاداری قطعی غیراسلامی ہے جس کا کوئی جواز نہیں اور جو کسی بھی خود دار قوم کے شایان شان نہیں۔’’الہلال‘‘ کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کا یہ پیغام تھا کہ غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف متحد ہو ں اور انہوں نے واضح کیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ اسلام کا پیغام ہے جو ہر طرح کی ذہنی، سیاسی اور روحانی غلامی کو ترک کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اس وقت کسی بھی رسالہ کا حکومت پر تنقید کرنا آسان نہ تھا۔ یہ تو خوش قسمتی تھی کہ بنگال حکومت میں ایسے کارکنوں میں کمی تھی جو ’’الہلال‘‘ کی فارسی اور عربی آمیز اردو سمجھ پاتے۔ پھر بھی لکھنؤ کے انگریزی اخبار ’’پائینیر‘‘ نے حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ پرچہ اس کے ساتھ کس قدرزہر بھرا پرو پیگنڈہ کر رہا ہے۔ اس بات کے لئے مولانا پہلے سے تیار تھے کہ جس طرح کا مواد وہ چھاپ رہے ہیں،اس کے پیش نظر ظالم اور جابر حکومت ان سے ایک دن زمانت طلب کرے گی۔ چانچہ حکومت نے ان سے پہلی مر تبہ دو ہزار روپے کی زمانت طلب کی۔ مگر حکومت بنگا ل نے اس پہلی زر ضمانت کو ضبط کر لیا۔ اس نے دو مضامین ’’فوجی اخبار‘‘ اور ’’سقوط انٹ ورپ‘‘ کو جو ’’الہلال‘‘ میں ۱۹۱۴ء؁ کے شمارہ میں شائع ہوئے تھے، قابل اعتراض قرار دیا ۔ ’’سقوط انٹ ورپ‘‘ مضمون کے ساتھ ایک فوٹو شائع ہوا تھا جس میں بیلجیم کے فوجی سیاح کو محوِ خواب دکھا یا گیا تھا۔اس کے نیچے قرآن کی ایک آیت درج تھی جس کا مفہوم تھا :’’کہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اللہ نے نہیں۔‘‘ حکومت نے دس ہزار روپے کی ایک اور ضمانت طلب کی ۔ مجبوراً آزاد کو ’’الہلال‘‘ بند کرنا پڑا ۔
’’الہلال ‘‘کے بعد مولانا آزاد نے ’’البلاغ‘‘ نام سے نیا پریس قائم کیا اور اسی نام پر ایک اخبار نکالنے لگے ۔ یہ اخبار ۱۲ نومبر ۱۹۱۵ء؁ کو منظر عام پر آیا اور ۱۳مارچ ۱۹۶۰ء؁اس وقت تک جاری رہاجب تک انگریزوں نے اس کوبھی ضبط نہیں کر لیا۔ ’’البلاغ‘‘ میں جو روح کار فرما تھی،وہ’’ الہلال ‘‘سے کسی طور مختلف نہیں تھی لیکن اس میں اسلام کے اخلاقی فلسفے پر زیادہ زور تھا۔ ’’البلاغ‘‘ کی تلقین تھی کہ مسلمان سامراجی ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔
اب سے تقریباً ۲۰ سال قبل مولانا آزاد کے اس پریس کی خبریں اخبار میں پڑھنے کو ملیںکہ جس میں ’’الہلال ‘‘ کی طباعت ہوتی تھی ۔ ماہنامہ ’’ دین دنیا ‘‘ کے مدیر جناب ارشد فہمی نے راقم کو فون کیا کہ مولانا آزادؔ کا وہ پریس جس پر ’’الہلال‘‘ و’’البلاغ‘‘ طبع ہواکرتے تھے ، بہت بُرے حال میںہے۔اگر اس کو مولانا آزاد کے میموریل یا آئی۔ سی۔ سی۔ آر۔میںمنتقل کرا دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ راقم نے اس بات کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ جامعہ ہمدرد کے میوزیم میںرکھنے کی بات بھی ہوئی ۔ مگر کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ بعد میں یہ بات سننے کو ملی کہ اس پریس کو لوہے کے تول اور مول میں بیچ دیا گیا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS