اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر الفت و انسیت کا مادہ رکھا ہے، سماج میں مستقل اور مسلسل رہنے کے ساتھ رہتے رہتے آدمی کو آدمی سے محبت ہوجاتی ہے، اور ایک قسم کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے، کسی سے دوستی کا تعلق، تو کسی سے رشتے کا تعلق وغیرہ۔
پھر اگر کوئی آدمی ان میں انتقال کر جاتا ہے یا پھر نقل مکان کر جاتا ہے تو اسکی یادیں، اسکی باتیں، اسکے ادائیں سالوں تک ستاتی رہتی ہیں، انھیں الفت و انسیت کی وجہ سے انسان کو “مونس و غمگسار” ساتھی ملتے ہیں، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
الفت و انسیت کے جذبات انسان کو نہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی بلکہ جانوروں اور چوپایوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں، خاص طور سے پالتو جانور اپنے مالک سے بہت ہی زیادہ مانوس ہوتے ہیں، مثلاً بکرے بکری، گائے بھینس، کبوتر وغیرہ مالک کے ایک ہی آواز پر جمع ہوجاتے ہیں، بے وقت آواز لگانے پر بھی مالک کے سامنے گھیرا ڈال دیتے ہیں، اتنی اطاعت و فرمانبرداری مالک کی اپنی اولاد بھی نہیں کرتے، اور اگر ان جانوروں کو بھی کچھ ہوجاتا ہے تو مالک بھی اداس ہوجاتا ہے۔
پہلے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر لوگ قربانی کا جانور بہت ہی پہلے خرید لیتے تھے، اور جو گھر کے بڑے بزرگ ہوتے تھے وہ انکی اچھی طرح پرورش کرتے تھے، اور گھر کے معصوم بچے روزانہ انھیں دانہ پانی کھلایا کرتے تھے اور ان سے اتنا مانوس ہوجاتے تھے کہ وہ اپنے قربانی کے جانوروں کا نام بھی رکھ لیا کرتے تھے گویا کہ اس جانور کو اپنے گھر کا ایک فرد مانا کرتے تھے۔
پھر جب عید الاضحی کی صبح ہوتی تو گھروں میں ایک الگ طرح کی خوشی ہوتی تھی، وہ اس لئے کہ آج ہمارا محبوب جانور خدا کی راہ میں قربان ہونے والا ہے۔
دیکھنے والا تو بظاہر سمجھتا تھا کہ قربانی کرنے والا اپنے جانور پر چھری چلا رہا ہے۔
لیکن ذبح کرنے والا اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کس پر چھری چلا رہا ہے، جانور پر چھری چلا رہا ہے یا پھر اپنے جذبات پر چھری چلا رہا ہے، یقین جانیے وہ جانور کا خون نہیں بہاتا تھا بلکہ خدا کے لئے اپنے جذبات پر چھری چلاتا تھا، اپنی الفت و انسیت کا خون بہاتا تھا۔
قارئین کرام! قربانی کا مقصد اور اسکی اصل روح یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی آرزؤں، تمناؤں، امیدوں، جذبات و خواہشات کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے قربان کردے، صبح و شام کی پوری زندگی خدا کی تسلیم و رضا کا نمونہ بن جائے۔
اطاعت کیا چیز ہے؟ تسلیم و رضا کیا ہے؟
خلیل اللہ سے پوچھو، ذبیح اللہ میں دیکھو۔
قارئین! اسلام میں قربانی کا منشا خود اس کے لفظ سے واضح ہے کہ قربانی کا منشا رضائے الٰہی کو پانا ہے، اور اس کی قربت حاصل کرنا ہے۔
اور یہ قربت خواہشات نفسانی کی قربانی کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
اور نفس کی قربانی یہ ہے کہ
انسان من مانی زندگی چھوڑ کر رب مانی زندگی پر اتر آئے۔
اور رب رب مانی زندگی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے ہر کام میں اپنی نیت خالص رکھے، کیونکہ نیت کے بدلتے ہی عمل میں کمی بیشی آجاتی ہے، اگر نیت اچھی ہوتی ہے تو عمل بھی اچھا ہوجاتا ہے اور اگر نیت کھوٹی ہوتی ہے تو عمل بھی کھوٹا ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہم دوسرے ایام میں جانور ذبح کرتے ہیں تو نیت اس سے ہماری صرف اسے کاٹ کر بیچنا یا صرف کھانا ہی ہوتا ہے، اور اس پر ثواب بھی نہیں ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم اسی جانور کو عید الاضحی کے دن اللہ کی رضا کے خاطر ذبح کرتے ہیں تو اسکا بہترین اجر بھی مرتب کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص عید الاضحی کے دن بھی اپنی نیت میں کھوٹ پیدا کر دیتا ہے، اور اسے ریا کاری یا دکھلاوئے کے واسطے ذبح کرتا ہے تو اسکا وہ ذبح کرنا، اسکی قربانی کرنا سب بے کار ہوجاتا ہے۔
آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے کی رسم تو اپنالی، لیکن سنت ابراہیمی کو فراموش کرتے ہوئے اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ دیا ہے۔
جبکہ ہم جو بھی عبادت کرتے ہیں اس کا مقصد اللّٰه کی خوشنودی اور اسکی رضا ہے۔ اگر قربانی کرتے ہوئے یہ جذبہ موجود نہیں تو صرف ایک رسم پوری ہوگی باقی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
قارئین! عید الاضحیٰ کا دن یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے کہ اللّٰه کی خوشنودی کی خاطر بہت سی خواہشات کی قربانی دینا ضروری ہے، یعنی ہمیں صرف مال و زر ہی خرچ نہیں کرنا ہے، بلکہ اپنے اندرقربانی کی اصل روح بھی بیدار کرنی ہے جو کہ سال کے بقیہ دنوں تک ہماری ذات کا حصہ بنی رہے اور ہم سال بھر چھوٹی چھوٹی قربانیاں دیتے رہیں، تا کہ آئندہ آنے والی عید الاضحی پر ہم ایک بار پھر اسی نیک نیتی اور صحیح روح کے ساتھ بڑی قربانی کر سکیں۔
اس لئے عید الاضحی کا دن لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا چاہیے کہ اللّٰه کی خاطر بہت سی خواہشات کو قربان کرنا پڑتا ہے ، نہ صرف ہمیں پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے ، بلکہ ہمیں اپنی داخلی قربانی کی حقیقی روح کو بیدار کرنا بھی ہے جو ایک اہم حصہ ہے۔
جو مسلمان آج قربانی دے رہے ہیں وہ حضرت ابراہیم (ع) کے عظیم عمل کی یاد تازہ کررہے ہیں، اور یہ عمل انھیں تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں رب کائنات کی خوشنودی کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔
جب بھی دین و اسلام کی بات آے تو اپنے نفس کو پس پشت رکھتے ہوئے اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کرتے ہوئے، اللہ کی رضا کے خاطر اپنے نفس کو قربان کردے، خداوند متعال کے بارگاہ میں سر خم تسلیم کر دے، اور اعلاء کلمۃ اللہ کا پرچم بلند رکھے۔
لیکن سوال ہے کہ ایسا ہوگا کب؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ ایسا اس وقت ہوگا جب ہم نے اپنی قربانی بھی اللہ کے واسطے کی ہوگی، ایسا ہوگا اس وقت جب ہم نے رضاء الہی کی امید کی ہوگی، بظاہر جانور کی قربانی کی ہوگی لیکن باطناً خود اپنے نفس کی قربانی کی ہوگی، ظاہر میں جانور کا خون بہایا ہوگا اور باطن میں خود اپنے نفس پر چھری چلائی ہوگی۔
لیکن سوال یہ ہوگا کہ یہ معلوم کیسے چلے گا کہ ہم نے چھری کس پر چلائی ہے، ایا چھری اپنے نفس پر چلائی ہے یا پھر جانور پر؟
تو اسکا جواب یہی ہے کہ اسکے لئے ہمیں خود اپنا محاسبہ کرنا پڑے گا، اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا، اور اپنے دل کو ٹٹولنا پڑے پڑے گا کہ ہم نے کس پر چھری چلائی ہے، کیا واقعی ہم نے اپنے نفس کی قربانی دی ہے، یا صرف جانور کو ہی ہلاک کیا ہے؟
کہیں اس میں ریا کاری تو نہیں تھی؟ کہیں اس میں دکھلاوا تو نہیں تھا؟ کہیں اس میں خود غرضی تو نہیں تھی؟
پھر اگر دل مطمئن ہو، اور اطمینان کی سانس لے رہا ہو تو سمجھ لیجئے کہ ہماری قربانی اللہ کے واسطے تھی، لیکن اگر دل ڈگمگا رہا ہو تو سمجھ لیجئے کہ ہم نے اپنے نفس کی نہیں بلکہ صرف جانور کا خون بہایا ہے۔
اس لئے ملت اسلامیہ کو چاہیے کہ وہ سنت ابراہیمی کے مقصد اور روح کو سمجھیں، دین و شریعت کے مقابلے میں اپنے نفسانی خواہشات و جذبات پر چھری چلاکر ان کو قربان کردیں، اس طرح دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا و خوشنودی والی زندگی کو شاندار و یادگار بنائیں۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا،
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا۔
ازقلم: امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔