ایسے سخت قوانین سے نجات کب

0

یشو وردھن آزاد

مطابقت اور کھلے عام غلط استعمال کے تلخ الزامات کے درمیان ہندوستان کے چیف جسٹس بھی آخرکار وطن سے بغاوت کے قانون کے خلاف کورس میں شامل ہوگئے۔ لاء کمیشن پہلے ہی اس ایشو پر غوروخوض کرچکا ہے اور اسے ہٹانے کی سفارش بھی۔ یہاں تک کہ معاشرہ کے کئی طبقات، غیر سرکاری تنظیموں، صحافیوں اور وکلا نے بھی سیاسی مقصد سے اس قانون کے بیجا استعمال پر سے پردہ اٹھایا ہے۔
پھر بھی معاملہ جوں کا توں نظر آرہا ہے۔ حکومت پگھلنے کو قطعی تیار نہیں ہے۔ ایسے معاملات کو درج کرنے سے متعلق نہ کوئی نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور نہ ہی اس موضوع پر پولیس ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی پی) کے سالانہ کنونشن میں کوئی چرچہ ہوئی ہے۔ اس دوران اعدادوشمار کافی سیاہ تصویر پیش کرتے ہیں-سال 2019میں وطن سے بغاوت کے قانون کے تحت 96لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن دو ہی قصوروار ثابت ہوسکے۔ اسی طرح غیرقانونی سرگرمیاں(روک تھام)ایکٹ(یواے پی اے) کے تحت 2016 سے 2019تک 5,922لوگوں کی گرفتاریاں ہوئیں، لیکن صرف132کا قصور ثابت ہوسکا، یعنی محض2.2فیصد کی قابل غور شرح۔
آخر یہ ظلم کیوں ہے، اس کو سمجھنے کے لیے مجرمانہ انصاف کا نظام(criminal justice system) کے اہم روح رواں کے کردار کو جاننا مناسب ہوگا۔ ان میں پہلا نام ہے پولیس کا۔ یہ ان دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرتی ہے اور معاملہ کی جانچ کرتی ہے۔ دوسرا ہے استغاثہ، جو پولیس سے آزاد ہوتا ہے اور عدالت میں حکومت کی طرف سے مقدمات کی پیروی کرتا ہے اور تیسری روح رواں ہے عدالت، جو فیصلہ سناتی ہے۔
وطن سے بغاوت یا یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کرتے وقت تین حالات میں ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلی حالت جب جانچ افسر اس کا استعمال جرم کی سنگینی کو بڑھانے و اپنے سینئر افسران کی توجہ مبذول کرنے کے لیے کرتا ہے۔ دوسری، جب اپنے اعلیٰ افسران یا ’اوپر‘ سے حکم ملنے پر وہ ایسا کرتا ہے۔ اور تیسری حالت جب وہ خود ان قوانین کا استعمال اس اعتماد کے ساتھ کرتا ہے کہ اس کے لیے اسے اپنے اعلیٰ افسران سے قبولیت (Acceptance) مل جائے گی۔
اس کی مطابقت کو جانچنے کا کوئی منظم طریقہ کیوں نہیں ہے؟ دراصل اپنے یہاں ڈی ایس پی، ایس پی، ڈی آئی جی سے لے کر آئی جی تک سپروژن کرنے والے افسران کی اتنی درجہ بندی ہیں کہ سبھی اسے نظرانداز کرنا پسند کرتے ہیں۔ خصوصی معاملات تو درجہ بندی میں اوپر جاتے وقت کئی ہفتہ وار یا پندرہ دن کی رپورٹوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ مگر شاید ہی کبھی ان دفعات کی ایف آئی آر کو واپس لینے کی بات کوئی افسر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ڈی جی پی اور ہوم سکریٹری بھی ایسے معاملات سے واقف ہونے کے باوجود آنکھیں بند رکھنا پسند کرتے ہیں اور چیف سکریٹری بھی۔

تو پھر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ سرکار ان قوانین کے استعمال کرنے کی اپنی طاقت نہیں کھونا چاہے گی اور اعلیٰ پولیس افسران اور سینئر بیوروکریٹس آواز بلند کرنے کے خواہش مند نظر نہیں آتے۔ استغاثہ بھی وزارت داخلہ کا ایک کمزور حصہ ہے۔ اس طرح امید ججوں سے ہی ہے کہ وہ یو اے پی اے کی حد کو نئی شکل دیں گے اور وطن سے بغاوت کا قانون ختم کریں گے، کیوں کہ یہ دونوں جمہوریت پر دھبہ ہیں۔

جہاں تک معززین کا سوال ہے، تو وزیرداخلہ(مرکز اور ریاست، دونوں میں) مقننہ میں اپنے محکمہ کا بچاؤ کرتے ہوئے ’جمہوریت کا قتل‘ کے الزامات کا جواب دیتے ہیں، جس کے بعد پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ایک اچھی طرح سے تیار سرکاری خط جاری کرتے ہیں جو اس طرح کے جرائم سے پیدا ہونے والے سنگین خطرے کو بتاتا ہے۔
اب بات استغاثہ کی۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ استغاثہ پولیس کو ٹھوس قوانین کی بنیاد پر معاملہ کو درج کرنے کی صلاح دیتے ہیں، لیکن سی آر پی سی1973(Criminal Procedure Code 1973)میں استغاثہ کو پولیس سے الگ کردیا گیا ار اسے ایک الگ یونٹ کی شکل دی گئی۔ اب ہر ریاست میں وزارت داخلہ میں ڈائریکٹوریٹ آف پروسیکیوشن ہوتا ہے۔ 1973سے پہلے، سینئر افسر اہم معاملات میں استغاثہ سے صلاح اس لیے لیا کرتے تھے تاکہ عدالت میں جب چارج شیٹ دائر ہو تو ملزم کو قصوروار ثابت کرنے کے سبھی عنصر اس میں موجود ہوں۔ مگر اب استغاثہ پولیس کا نہیں، بلکہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی استغاثہ ریاست کے معاملہ کی پیروی کرتا ہے، تب بھلا وہ کیسے ان دفعات کے تحت غلط طریقہ سے ملزم شخص پر مقدمہ چلا سکتا ہے اور ایسے معاملہ کو عدالت کی نظر میں نہیں لاتا؟ استغاثہ کے اس مخمصہ کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ریاست کی جانب سے جج کے سامنے ایک ایسے معاملہ کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس میں وہ خود اس کی سچائی کے سلسلہ میں پریقین نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے استغاثہ کے کردار پر تمام فریقین کے ذریعہ غوروخوض کیا جانا درکار ہے۔
اب عدلیہ کی بحث۔1870میں بنے وطن سے بغاوت کے قانون میں تقریباً ہر ان سرگرمیوں اور الفاظ، بیانات اور تحریروں کو شامل کیا گیا تھا جو ظاہری طور پر حکومت کو بدنام کرسکتے ہیں، اسی لیے انتہائی پرجوش پولیس افسر یا ریاست کو اس کے غلط استعمال کا ایک بڑا موقع مل جاتا تھا۔ بعد میں عدالتوں نے اس کمی کو قبول کرتے ہوئے، اپنے احکامات میں اس کی حد متعین کی۔ 1962کے کیدارناتھ معاملہ میں تو سپریم کورٹ نے کہا بھی کہ حکومت کے کام کاج سے ناخوش ہوکر کیے گئے تبصرے چاہے کتنے بھی سخت ہوں، اگر اس سے تشدد ہونے یا پرتشدد عمل کے لیے اکسانے کا خطرہ نہ ہو تو اسے وطن سے بغاوت میں شامل نہ کیا جائے۔ایسے ہر معاملہ کی ایف آئی آر کاپی مجسٹریٹ کے پاس جاتی ہے اور پولیس کے ذریعہ پیش چارج شیٹ کو پرکھنے کے بعد ہی جج الزام طے کرتے ہیں۔ اگر پہلی نظر میں ہی معاملہ سچ نظر نہیں آتا تو جج ان دفعات کے تحت الزام طے کیوں کرتے ہیں؟ آخرکار دہلی ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کے تحت گرفتار دو ایکٹیوسٹ کو یہی کہتے ہوئے ضمانت دی تھی کہ پہلی نظر میں کوئی معاملہ نہیں بنتا۔ اسٹین سوامی معاملہ میں بھی، ان کی گرفتاری کے بعد، قومی جانچ ایجنسی نے انہیں حراست میں لینے کا مطالبہ تک نہیں کیا۔
تو پھر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ سرکار ان قوانین کے استعمال کرنے کی اپنی طاقت نہیں کھونا چاہے گی اور اعلیٰ پولیس افسران اور سینئر بیوروکریٹس آواز بلند کرنے کے خواہش مند نظر نہیں آتے۔ استغاثہ بھی وزارت داخلہ کا ایک کمزور حصہ ہے۔ اس طرح امید ججوں سے ہی ہے کہ وہ یو اے پی اے کی حد کو نئی شکل دیں گے اور وطن سے بغاوت کا قانون ختم کریں گے، کیوں کہ یہ دونوں جمہوریت پر دھبہ ہیں۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS