عمیر انس
میرے مضامین کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک بہتر سیاسی اور سماجی مستقبل کے لیے اور ایک باعزت اور برابری کے احساس کے ساتھ رہنے والے شہری ہونے کا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان جیسے ایک جمہوری اور تکثیری ملک میں ان کے لیے سماجی سیاست کی شرطیں غیر مسلم شہریوں کے لیے ضروری شرطوں سے بالکل الگ رہیں گی، وہ مادی وسائل، مستحکم اداروں، باصلاحیت افراد اور صحتمند مقابلہ جاتی ماحول کے ساتھ اپنے مستقبل کے لیے سرگرم ہیں، ایک جمہوری معاشرے کے شہری ہونے میں اور بادشاہی نظام کی رعایا ہونے میں فرق ہی یہ ہے کہ جمہوری معاشرے میں شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے بیدار بھی رہنا ہوتا ہے ، منظم بھی اور زیادہ سے زیادہ سرگرم بھی۔۔۔ اور جس طبقے کو عوامی رائے اپنے حق میں پھیر لینے کی جتنی صلاحیت ہوگی، اسے ریاست سے زیادہ بہتر توجہ ملنے کی امید کرنی چاہیے، اب آئیے مسلمان شہریوں کے منظم ہونے کی کیفیت کا جائزہ لیں۔ گزشتہ پچیس سال کے اپنے محدود مشاہدے سے یہ بات میں پوری ایمانداری سے لکھ سکتا ہوں کہ جہاں غیر مسلم تنظیموں کا مقصد زیادہ سے زیادہ مقامی، ریاستی، قومی سطح کے قائدین تیار کرکے انہیں لانچ کرنا ہوتا ہے، وہیں مسلم تنظیموں کا مقصد چن چن کر ہر اُبھرتی قیادت کو دبانا اور ختم کرنا ہوتا ہے، ہر تنظیم اور تحریک میں ایک دو ایسے برگد کے درخت ہوجاتے ہیں جن کے سائے میں ٹھنڈک تو حاصل ہوتی ہے لیکن کوئی نیا درخت، پودا پروان نہیں چڑھ سکتا۔ شاہی اور سلطانی طرز کی قیادت مسلم معاشروں کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے۔ کسی بھی ملی تنظیم اور ادارے کو اٹھا کر دیکھیں، ان کے یہاں نوجوان قیادت یا نئی قیادت کی اوسط ساٹھ سال سے شروع ہوتی ہے جبکہ چودہ سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی کریمؐ کو چالیس سال کی عمر میں ہی نبوت کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ مسلم تنظیموں میں لوگوں کو منظم رکھنے اور سماجی، سیاسی کاموں کے لیے متحرک رکھنے کے لیے کس قسم کا انتظام کیا جاتا ہے؟
پہلے مین اسٹریم پارٹیاں جہاں مسلمان نمک کے برابر ہیں اور وہ بھی بہت کمزور حالت میں، اگر آپ کانگریس میں ہیں تو آپ کا راستہ روکنے والا یقینا ایک بہت ہی بڑا کانگریسی مسلمان ہی ہوگا جو پارٹی میں صرف اس لیے ہی بڑا ہے کیونکہ اس نے اپنے پیچھے آنے والے ہر مسلمان کا راستہ روک رکھا ہے، مسلمان اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں میں اتنے مجبور اور بیچارے کیوں ہوتے ہیں؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اکثر وہی مسلمان لیڈر اپنی پارٹیوں میں کمزور ہیں جو اپنے عوام سے کٹے ہوئے ہیں، یا پھر وہ مسلمان جو اپنے علاقے کے غیر مسلم عوام میں کوئی اثر نہیں رکھتے، اتفاق اور بدقسمتی ہے کہ سبھی سیاسی جماعتوں کو راجیہ سبھا کی کوالٹی والا مسلمان سیاسی رہنما چاہیے، اپنی خود کی بنیاد پر جیت پانے والے نہیں۔ اب سوال کریں کہ ملت کے سب سے بڑے رہنما کیا وہ ہیں جو الیکشن جیتنے بھر کی حمایت رکھتے ہیں یا وہ جو نہیں رکھتے، اسی بنیاد پر یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ عام سیاسی جماعتیں انتخاب کے بعد بھی اپنے اپنے غیر مسلم علاقوں میں سرگرم رہتی ہیں کیونکہ ان پر اپنے عوام کا دباؤ رہتا ہے،لیکن مسلمان علاقوں میں عوام کے درمیان ان کی سیاسی سرگرمیاں اچانک بند ہو جاتی ہیں۔ عوام کو سیاسی بیداری والے کاموں سے دور رکھنا اور سیاسی شعور حاصل ہونے سے روکنا ہر مین اسٹریم پارٹی کی ضرورت ہے، انہیں پسماندہ ہندو ووٹر سرگرم چاہیے، اپنی برادری کا ووٹر سرگرم چاہیے بس ایک مسلمان ووٹر خاموش ہے زبان چاہیے، اور مسلمان رہنما اکثر اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں، اگر آپ کو یاد ہو تو معلوم ہوگا کہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر گفتگو کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شاید ہی کوئی مہم اور جلسہ ہوا تھا، اکثر کانفرنس ملی تنظیموں نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی، حالانکہ انہیں یہ پروگرام خود کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں سے کرنے کے لیے کہنا چاہیے تھا۔
ایک جمہوری سیاست میں عوام کا منظم ہونا، بیدار ہونا اور پھر متحرک رہنا جمہوری معاشرے میں حقوق کی حصولیابی کی شرط ہے، ہمارے یہاں قیادت کا بیدار رہنا اور متحرک رہنا کافی مانا جاتا ہے، جیسا کہ عرض کیا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلم محلوں میں اپنی ریگولر سیاسی سرگرمیاں نہیں کرتیں، مزید یہ کہ مسلمان تنظیمیں چونکہ خاندانی وراثت کے اصولوں پر قائم ہیں اس لیے وہ مقامی سطح پر اور ریاستی سطح پر زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کرنے اور انہیں اپنی تنظیم کے تحت منظم اور متحرک رہنے کے لیے متوجہ نہیں رہنا چاہتیں، ایک شاہین باغ تحریک نے اچانک پچاسوں طلبا اور طالبات اور خواتین کو اپنے حقوق کی بیباکی سے حفاظت کے لیے سامنے لا کھڑا کر دیا تھا، پوری بی جے پی کی قیادت مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک ہزاروں احتجاجوں، تحریکوں اور سرگرمیوں کے نتیجے سے پیدا ہوئی ہے، آپ کیا چاہتے ہیں؟ یہ سب کیے بغیر عوام مضبوط ہو جائیں؟ مصر کے عوام کی حالت دیکھ لیں، بنگلہ دیشیوں سے بھی زیادہ قابل رحم ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسلمان کتنی سیاسی جماعتوں میں تقسیم رہیں، کتنے الگ الگ گروہوں میں ہوں، کتنا بھی آپس میں سیاسی محاذ آرائی کریں اور کتنی بھی نئی تنظیمیں بنائیں، جب تک وہ ایک صحت مند ماحول میں سیاسی و سماجی مسائل پر دوسرے سے اختلاف کرتے رہیں گے اور اپنی سرگرمیاں انجام دیتے رہیں گے تو اس کا فائدہ انہیں کسی نہ کسی طرح حاصل ہوتا رہے گا، اسرائیل میں شاید ہی کبھی ایک پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہو، سیاسی بکھراؤ کا یہ عالم ہے کہ پانچ سالوں میں تین اور چار انتخاب ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہر اعتبار سے مضبوط ہیں کیونکہ ان کے عوام ان کے ساتھ ہیں، مسلم جماعتوں کو بلا تاخیر اپنی مقامی یونٹس قائم کرنے اور انہیں متحرک کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے، انہیں معمولی اختلافات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں یہ قبول کرنا چاہیے کہ سیاسی و سماجی عمل ایک مشینی عمل نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل سیکھنے، تیار ہونے اور آگے بڑھنے کا عمل ہے۔ آپ ایک نوجوان کو کسی ایک کام کے لیے اعتماد کرکے مقامی قیادت دیں گے تو پانچ سال دس سال میں وہ ملکی سطح پر بھی ایک مضبوط نمائندہ بن کر ابھر سکتا ہے، عوامی حمایت کے ساتھ اُبھرنے والے نمائندوں کو خریدنا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ انہیں محنت سے حاصل ہوئی عوامی حمایت کے آگے جوابدہ ہونے اور اسے بچائے رکھنے کا ڈر ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مزاج میں جمہوریت نہیں ہے، انہیں جمہوریت صرف آر ایس ایس سے مقابلہ کرنے کے لیے چاہیے بس!صرف باہری خطروں سے لڑنے کے لیے۔کیا مولانا اور کیا مسٹر، جس کو جہاں کوئی منصب حاصل ہے وہ اول درجے کا غیر جمہوری رویہ رکھنا چاہتا ہے، آپ کسی ایک مسلمان قائد کا نام بتائیں کہ ان کی برکت سے دس بیس نوجوان قیادت میں آگئے ہوں؟ مسلمان بنیادی طور پر ابھی بھی جمہوریت کو ایک ایسی ضرورت مانتا ہے جس کی ضرورت اسے ملت کے اندر نہیں صرف ملت کے باہر کے مسائل حل کرنے کے لیے ہے۔ جمہوری یا مبنی بر شورائیت طرز زندگی انسانوں کو احترام دینے کے اصول پر مبنی ہے، اس اصول پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اچھا سوچنے سمجھنے اور کرنے کی صلاحیت اور حق بخشا ہے اور اسے ایسا کرنے کا موقع نہ دینا یہ ان کی حق تلفی ہے، جو لوگ اپنی مسجدوں کو صحتمند شورائیت کے ساتھ نہیں چلا سکتے، جو لوگ پچاسوں پڑھے لکھے افراد پر اپنی نا اہل اولاد کو اپنے عوام پر مسلط کردیں،جو معمولی مناصب کو حاصل کرنے کے لیے صحت مند مقابلے کے بجائے سازشوں، مکاریوں اور دوسروں کو برباد کرنے پر آمادہ ہوں، آپ ان سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ آپ کو آر ایس ایس سے بچائیں گے؟ ہم اپنے درمیان اختلافات کا اظہار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے اور عیاری سے انہیں حاشیے پر پھینک دیتے ہیں، ہم اپنے اداروں میں، تنظیموں میں صلاحیت کی بنیاد پر لوگوں کو فروغ دینے کے بجائے وفاداری اور غلامی کی بنیاد پر مناصب بانٹتے ہیں، اخبارات میں،جلسوں میں، مجلسوں میں اختلافات کو پیش کرنے کا استقبال نہیں کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب ملت اپنے مدرسوں، کالجوں، تنظیموں اور اداروں میں بنیادی شورائیت کا اصول اختیار نہیں کرسکتی ہے تو انہیں یوگی مودی بند کریں نہ کریں، وہ خود اپنے آپ کو ایک دن ضرور برباد کریں گے اور کر رہے ہیں۔
[email protected]