عمیر کوٹی ندوی
’’ہمارا دیس کدھر جارہا ہے؟‘‘۔ یہ سوال سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ اس وقت یہی سوال ملک کا ہر سنجیدہ اور وطن دوست شہری بھی کررہا ہے۔ لیکن جواب میں گہرا سناٹا ہے۔ سپریم کورٹ اس سے پہلے بھی یہ سوال متعدد بار کرچکا ہے۔ معاملہ خواہ کوئی بھی رہا ہو لیکن ہربار جواب میں سناٹا ہی رہا ہے۔ اس کی وجہ سب جانتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے میڈیا اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس نے جن لوگوں سے پوچھا جانا چاہئے تھا ان سے سوال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ جن کی طرف سے اسے خود سوال کرنا اور ان کی زبان بننا چاہئے تھا اس نے الٹا انہیں کو نشانہ پر لے لیا ہے۔ اس وقت ملک اور شہریوں کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اس نے اپنے لئے ایک راہ چن لی ہے۔ راہ نفرت انگیز نشریات، اشتعال انگیز ڈبیٹ، پروپیگنڈہ پر مبنی رپورٹنگ، ایک مخصوص طبقہ کے خلاف ماحول بنانے، اسے بدنام کرنے، اس کے خلاف لوگوں کا ذہن بنانے اور انہیں مشتعل کرنے کے علاوہ ایک خاص طبقہ کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے جھوٹ کو فروغ دینے اور سچ کو چھپانے کی ہے۔ لوگ میڈیا کی اس روش سے ناواقف نہیں ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ میڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے۔
لیکن ’خوف‘ یا ’فائدہ‘ کی وجہ سے اختیار کی جانے والی میڈیا کی اس روش کا سماج پر کیا اثر پڑ رہا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے جو توجہ چاہتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 21؍ ستمبر کو نفرت انگیز تقاریر سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے زیادہ نفرت انگیز تقاریر میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہوتی ہیں، ہمارا ملک کہاں جا رہا ہے‘‘۔ جسٹس کے ایم جوزف اور ہری کیش رائے کی بنچ نے مزید یہ بھی کہا کہ ’’سیاسی جماعتیں اس سے سرمایہ کماتی ہیں اور ٹی وی چینلز ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ زیادہ تر نفرت انگیز تقاریر ٹی وی، سوشل میڈیا پر ہو رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس ٹی وی کے حوالے سے کوئی ریگولیٹری میکانزم نہیں ہے۔ انگلینڈ میں ایک ٹی وی چینل پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں ایسا نظام موجود نہیں ہے۔ اینکرز کو بتایا جائے کہ اگر آپ غلط کریں گے تو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کسی پروگرام کے دوران کسی شخص کو کچلتے ہیں۔ جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں تو ہمیں یہی ملتا ہے۔ ہم اس سے جڑ جاتے ہیں……اس کا فائدہ سیاست دان اٹھا رہے ہیں۔ جمہوریت کے ستونوں کو آزاد خیال کیا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلوں کو ان کا شکار نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
سپریم کورٹ نے مذکورہ باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ ’’ ایسے ماحول میں مرکز خاموش کیوں ہے؟ ایک سخت ریگولیٹری سسٹم کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ اور اس معاملہ پر کہی گئی سپریم کورٹ کی دیگر باتیں پورے طور پر اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ عدالت معاملہ کی سنگینی سے خوب واقف ہے۔ اس کے سامنے یہ پہلو بھی واضح ہے کہ میڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے۔ عدالت کا یہ کہنا کہ ’’سیاسی جماعتیں اس سے سرمایہ کماتی ہیں اور ٹی وی چینلز ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہے ہیں‘‘ اور پھر یہ کہ ’’اس کا فائدہ سیاست دان اٹھا رہے ہیں‘‘ اسی حقیقت کو بیان کر رہا ہے۔ اس حقیقت کو لوگ بھی جانتے ہیں لیکن مسئلہ سیاست کا ہے خاص طور پر وہ سیاست جسے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے اختیارات حاصل ہوں ظاہر ہے کہ ’فائدہ‘ کے مواقع بھی اسے ہی حاصل ہوں گے۔ اس وقت پورے ملک میں جو ہو رہا ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ ایک خاص فکر، نظریہ کے حامل اورخاص طرز سیاست کے لوگ ایک عرصہ سے جس راہ پر چل رہے ہیں اس نے انسانی زندگی کو بہت متاثر کیا ہے۔ ملک کے تمام شعبے اس کے اثر سے بچ نہیں پائے ہیں۔ خود عدالت نے بھی عدلیہ پر پڑنے والے اس کے اثرات کا ایک سے زائد بار ذکر کیا ہے اور اس پر کبھی اپنی تشویش تو کبھی برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔اس سب کے باوجود سپریم کورٹ کا یہ سوال پھر بھی قائم ہے کہ ’’ہمارا دیس کدھر جارہا ہے؟‘‘۔ ملک کے فکرمند اور سنجیدہ لوگوں کو لاحق تشویش اسی بات پر ہے کہ میڈیا کی بے سمتی نہیں بلکہ اپنے کردار سے انحراف حقیقت میں ملک کی سمت کو متاثر کر رہا ہے اور یہ سوال پیدا کر رہا ہے کہ وہ ’’کدھر جارہا ہے‘‘۔ ظاہر سی بات ہے کہ نفرت کا پروسا جانا اور وہ بھی پوری شدت، منصوبہ بندی اور تسلسل کے ساتھ کسی بھی صورت ملک وسماج کے لئے فائدہ مند نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ خود ان لوگوں کے لئے بھی فائدہ مند نہیں ہے جنہوں نے اس وقت اس کو اقتدار، اختیار اور دولت وسرمایہ حاصل کرنے کے لئے اپنایا ہے۔ اس لئے کہ برائی تو برائی ہوتی ہے اور اس سے وقتی طور پر تو مقصد حاصل ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن نتیجہ کے طور پر اس کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو انسانی تاریخ نے ہر دور میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن انسان اپنے وقتی فائدہ کے لئے اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ کسی بھی ملک میں اگر کوئی ادارہ غلط رخ پر جارہا ہو یا اسے غلط رخ پر لے جانے کی کوشش کی جارہی ہو تو پھر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر توجہ دے اور حق، انصاف، مساوات کو قائم کرنے، برائی، ظلم، سرکشی کو روکنے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی اپنی بنیادی ذمہ داری کو ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس تعلق سے قائم گہرے سناٹے اور حکومت کی خاموشی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ’’ مرکز کیوں خاموش ہے، سامنے کیوں نہیں آتا؟‘‘۔ یہ سوال بنیادی ہے اور پھر عدالت کی طرف سے اس سوال کا کیا جانا اس کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔
([email protected])
کدھر جارہا ہے ہمارا دیس؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS