مدارس کا سروے: وقت کی اہم ضرورت

0

علیزے نجف
گزشتہ دنوں اتر پردیش میں یوگی حکومت کی جانب سے غیر تسلیم مدارس کا سروے کا سرکلر جاری کیا گیا جس پہ کہ عمل درآمد ہونا بھی شروع ہوگیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کابینہ کے ایک سینئر وزیر دھرم پال سنگھ نے کہا کہ اس سروے کا مقصد ریاست میں غیر تسلیم شدہ مدارس کی تعلیم میں خامیوں کو تلاش کرنا ہے۔
اس کے تحت کئے جانے والے سوالات کچھ اس طرح ہوں گے مدرسہ کا پورا نام کیا ہے؟ اسے چلانے والی تنظیم کا کیا نام ہے؟ مدرسہ کب قائم ہوا؟ محل وقوع کی تفصیلات، چاہے وہ نجی یا کرائے کی عمارت میں چلائی جائے؟ کیا مدرسے کی عمارت طلباکے لیے موزوںہے؟ طلباکو کیا سہولیات مل رہی ہیں؟ اساتذہ اور طلباکی کل تعداد کتنی ہے؟ مدرسہ میں کس نصاب کی پیروی کی جاتی ہے؟ مدرسہ چلانے کے لیے آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ کیا مدارس کے طلباکہیں اور پڑھ رہے ہیں؟کیا مدرسہ کسی غیر سرکاری تنظیم یا گروپ سے وابستہ ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو کسی بھی مدرسے کے پورے نظام ہائے تعلیم کو منکشف کر دے گا۔
یہ سروے اس وقت شروع کیا گیا جب نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے اپنی رپورٹ تمام ریاستی حکومتوں کو پیش کی جس میں ان سے مدارس کے جانچ کی سفارش کی گئی۔ رپورٹ میں یہ سفارش بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی بعض شکایات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایک لاکھ سے زیادہ مدارس ہیں۔
اس تنظیم کا مقصد بچوں کے لئے اس بنیادی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے جس میں انھیں بنیادی مذہبی اور ثقافتی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید اور بنیادی تعلیم حاصل ہو، جیسا کہ اقلیتی اداروں میں ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ ادارہ چوں کہ کمیشن اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بچوں کے حقوق کے تحفظ کا پابند ہے۔ اس لئے تمام ریاستی حکومتوں کو اس کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے۔
ابتدا ً اس سروے کی مخالفت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کیونکہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے جس طرح سے ملک میں یک طرفہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور آسام میں کئی مدارس کو منہدم کیا گیا اور ان کے زمہ داران کی گرفتاریاں ہوئیں اس کی وجہ سے لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ اس کے پس منظر میں حکومت کی نیت پہ کچھ لوگوں کو شک ہے اسی شک کی بنیاد پہ مسلمان اس سروے کو اسلامی تشخص اور اقدار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا معاملہ گردانتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ مخالفت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
خوش قسمتی سے انھیں مسلمانوں میں سے ایسا طبقہ بھی نکل کے سامنے آیا جس نے مدارس کے سروے کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا۔ملک میں موجود بیشتر مدارس کا نظام موجودہ وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہونے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے اس میں تبدیلی لانے کے حوالے سے بحث پچھلے کئی سالوں سے ہوتی رہی تھی لیکن چند معمولی تبدیلیوں کے علاوہ اس میں اب تک کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لائی جا سکی تھی جس کی وجہ سے مدارس میں تعلیم پانے والے طلبہ کو مدرسوں سے تعلیم سے فراغت کے بعد پھر دو قدم پیچھے ہو کر ہائی اسکول اور انٹر کے لئے تین سے چار سوال گنوانے پڑتے تھے اگرچہ کئی مدارس کا الحاق کئی یونیورسٹیوں سے ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں وہاں کے فارغ التحصیل طلبا بآسانی گریجویشن میں داخلہ لے سکتے ہیں لیکن ان کے پاس دسویں اور بارہویں کی سند نہیں ہوتی سرکاری نوکریوں میں اس سند کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اس کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر طلبا کے روشن مستقبل کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے اس بنیادی ڈگری کے بغیر آگے چل کر انھیں اور کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو ہوئی چنندہ مدارس کے الحاق کی بات ملک میں اب بھی ایسے بیشمار مدارس ہیں جہاں سے ملنے والی سند کو کسی بھی عصری ادارے میں کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے وہاں پڑھنے والے طلبا اکثر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ بیشک مدرسوں کی اپنی ایک روشن تاریخ ہے اس کے کارنامے تاریخ میں ذریں لفظوں سے لکھے ہوئے ہیں مدرسوں کے اس کردار کو یوں ہی مسلم اور روشن بنائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے نصاب و نظام کو وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ دینی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے کسی کے لئے بھی آگے بڑھنا ممکن نہیں۔
اس سروے کے ذریعے کم از کم ان اداروں کو خواب غفلت سے بیدار کیا جا سکے گا جو اس کے لئے کسی بھی طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی زحمت کو گوارا کرنے کے روادار نہیں تھے اس سروے کا بڑا فائدہ خود مدارس کے حق میں ہو گا وہ اس طرح کہ ان اداروں سے وابستہ طلبا ہر جگہ قسمت آزما سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع تر ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ عصری اور مذہبی تعلیم کے درمیان پائے جانے حد فاصل کو کم کیا جا سکے گا۔ بیشک ملک میں ایسے کئی ایسے مدارس ہیں جہاں کے طلبا تقریباً ملک کے سبھی گوشے میں پائے جاتے ہیں لیکن ایسے مدارس کی تعداد بہت کم ہے اس لئے مدارس کے نظام و نصاب میں تبدیلی کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مدارس کے نصاب میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو بہت ساری دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تقریباً بیس تا بائیس سال گزارنے کے بعد وہ مذہبی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں لیکن بنیادی عصری موضوعات سے نابلد رہتے ہیں جو کہ خود مسلمانوں اور مدارس کے لئے بھی المیہ ہے۔
مدارس کے نصاب میں تبدیلی مسلمانوں کی ترقی کے لئے ازحد ضروری ہے یوگی آدتیہ ناتھ کے اس سروے کے فیصلے کی ستائش بھی کی جارہی ہے کیونکہ حکومتی سطح پہ کی جانے والی کوشش سے بچنے کے لئے کسی کے پاس کوئی بھی راہ فرار نہیں ہوگی طوعاً یا کرہاً اب سبھی مدارس کو وقت کی تبدیلیوں کو قبول کرنا ہوگا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اس سروے میں سارا نیک فال مسلمانوں کے ہی حق میں ہو سکتا ہے چند ایک واقعات ایسے بھی سامنے آ جائیں جو کسی طرح مسلمان کے خلاف ہو حکومت کی نیت اور منشا کو درکنار کرتے ہوئے یہ بات ماہرین پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اس سروے کے ذریعے مدارس و مکاتب میں ایک بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے ساتھ ہی ساتھ اس نظر یے کی تردید بھی کی جا سکتی ہے جس میں مخصوص فرقے کے لوگ مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیتے ہیں اگر مسلمان اس ضمن میں تعاون نہیں کریں گے تو ان کا جوابی حملہ یہ ہو گا کہ اگر ان مدارس میں کچھ غلط نہیں چل رہا تو اتنی مزاحمت کیوں ہو رہی ہے۔ اگر مخالفت کررہے ہیں تو یقینا ہمارا شک صحیح ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس ضمن میں مکمل طور سے اس کی اطاعت قبول کر لیں ہاں یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ اس سروے سے فائدہ اٹھائیں اور حکومت سے وہ ساری سہولت بھی حاصل کریں جو بنیادی طور پہ وہ فراہم کرنے کا وعدہ کررہی ہے نہ ہی اس سروے پہ اندھی تنقید کریں اور نہ ہی بند آنکھوں سے تقلید کرنا شروع کردیں۔
مسلم شاعر و فلسفی سرمحمد اقبال نے 21 مارچ 1932 کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے بطور صدر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
مدارس کے نصاب پر بنیادی نظرثانی کی اشد ضرورت ہے، جو ان کے طالب علموں کو اس وقت کی زیادہ حقیقت پسندانہ اور قابل تعریف تفہیم فراہم کرے گا جس میں وہ رہتے ہیں۔
اس ضرورت کے تحت اور حکومتی احکام کے مجبور ہو کر ہی سہی ان لوگوں نے بھی سروے میں تعاون کرنے کی حمایت کی ہے جنہیں اس پہ اعتراض تھا اس مسئلے کو لے کر دارالعلوم دیوبند میں اہم اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں تقریباً 250 سے زائد مدارس کے زمہ داران اور سیکڑوں علمائے کرام نے شرکت کی تھی جس میں علمائے دیوبند نے واضح طور پہ تمام مدارس کے ذمہ داران کو تاکید کی کہ وہ سروے ٹیم کے ساتھ تعاون کریں اور انھیں ساری صحیح معلومات فراہم کرائیں تاکہ کسی جانچ وغیرہ کی صورت میں انھیں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اگر یہ لگتا ہے کہ ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ضابطے کے خلاف ہیں تو جلد از جلد اس میں تصحیح کریں تاکہ غیر ضروری مسائل سے بچا جا سکے اس کے علاوہ اور بھی کئی ساری ہدایات جاری فرمائیں جس میں انھوں نے کہا کہ مالیات کا نظام چست و درست رکھیں، زمینی جائیداد کے ملکیتی کاغذات کو درست رکھیں، مدرسے کو چلانے والی سوسائٹی یا ٹرسٹ اور مدرسہ کی جائداد رجسٹریشن قانونی تقاضوں کو مطابق کرا لیں وغیرہ وغیرہ
دار العلوم دیوبند سے جاری کئے گئے اس اعلامیے میں ایک اہم قابل ذکر تبدیلی یہ تھی کہ جو طلبا باہر سے ہائی اسکول کا سرٹیفکیٹ لے کر آئیں گے ان کو بھی دارالعلوم میں داخلہ مل جائے گا عصری علوم کی ضرورت کے مد نظر اس کو مزید ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت آئندہ سال سے فارسی درجہ کے بچوں کو اوپن بورڈ سے ہائی اسکول کرایا جائے گا اس کے بعد ہی انھیں عربی درجات میں داخلہ دیا جائے گا وہیں حفظ و ناظرہ کے طلبہ کو ابتدائی ہندی اور انگریزی کی تعلیم دی جائے گی اور اس کے ساتھ اب سے پانچ سال بعد ششم و ہفتم عربی میں داخلہ لینے والے طلبا کے لئے ہائی اسکول کی سند کو لازمی کر دیا گیا ہے۔
بیشک یہ فیصلہ جو کہ کافی دیر سے لیا گیا اس کے حوالے سے کہا جانے لگا ہے کہ بالآخر برف پگھل گئی لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سارے منشورات پہ عملدرآمد کیسے کیا جاتا ہے اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مدارس کے نصاب کو ابھی مزید تبدیلی کی ضرورت ہے کم از کم وہاں کا نصاب ایسا ہو کہ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد عصری تعلیم کے حصول کے لئے انھیں کئی سال پیچھے نہ جانا پڑے۔ دینی تعلیم کا حصول ہر مسلمان کی پہلی ترجیح تبھی ہو سکتی ہے جب اس میں وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنے کی صلاحیت ہو۔ اس خوبی کے فقدان کی وجہ سے اکثر والدین زمانے کے تقاضوں کے مدنظر مدارس کا انتخاب کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں مسلمان اپنے دین کے بنیادی شعور سے دور ہوتے جارہے ہیں کیوں کہ ان کے سامنے دو ہی راستے نظر آتے ہیں یا تو مکمل دینی تعلیم حاصل کریں یا پھر مکمل عصری تعلیم کی ہی طرف مائل ہو کے رہ جائیں اب ایسے میں کوئی یہ بھی اعتراض کر سکتا ہے کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل بیشمار طلبا دنیا کے تمام عصری محکموں میں کامیابی کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں بیشک یہ سچ ہے کہ مدارس کے انتظامیہ خواہ وقت کی تبدیلیوں کو قبول نہ کریں لیکن طلبا کو اس تبدیلی کو قبول کئے بغیر گزارا کرنا ممکن نہیں یا تو وہ مدارس سے فارغ ہو کر عصری تعلیم کے حصول کے لئے ذاتی طور پہ محنت کر کے آگے بڑھیں اور عصری شعبوں میں اپنی جگہ بنائیں اور معاشی فراوانی حاصل کریں یا پھر کسی مدرسے یا مسجد میں امام ہو جائیں جن کو معمولی تنخواہ دینا بھی منتظمین پہ گراں بار ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS