کانگریس کے صدر کا انتخاب

0

کانگریس کے صدر کے انتخاب کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے ،انتخاب کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔اب توصورت حال پوری طرح واضح ہوگئی کہ اس بار پارٹی کا صدر غیرگاندھی بنے گا، یعنی سونیاگاندھی کے کنبہ سے کوئی بھی پارٹی کی قیادت نہیں سنبھالے گا۔پھر بنے گا کون؟ کس پر لیڈران بھروسہ کریں گے ؟ اورپارٹی کس کو کانٹوں بھرا تاج سونپے گی ؟ یہ تو طے ہے کہ جو بھی صدر بنے گا، وہ الیکشن کے ذریعہ منتخب ہوگا ۔اس کیلئے امیدواروں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں ،اوران کے درمیان زورآزمائش بھی شروع ہوگئی ہے ۔انتخاب صاف وشفاف ہو، اس کیلئے پارٹی کے ترجمانوں اورشعبہ میڈیا کے عہدیداروں کو ہدایت دے دی گئی ہے کہ وہ امیدواروں کے بارے میں کسی بھی طرح کی رائے زنی نہ کریں ۔یوں تو پارٹی کی طرف سے یہی کہا جارہا ہے کہ کوئی بھی الیکشن لڑسکتاہے ۔ کسی کے الیکشن لڑنے پر نہ توکوئی پابندی ہے اورنہ ہی کسی کواعتراض ہے ۔لیکن 2ہی مضبوط نام سامنے آرہے ہیں ، ایک راجستھان کے وزیراعلی اشوک گہلوت اور دوسرے پارٹی کے سینئر لیڈر ششی تھرور۔ باقی کمل ناتھ ، منیش تیواری ، دگوجے سنگھ اور کے نام بھی اچھل رہے ہیں ، ان میں کچھ الیکشن لڑسکتے ہیں ۔ کاغذات نامزدگی داخل ہونے کے بعد ہی اصلی پوزیشن واضح ہوگی،لیکن یہ طے ماناجارہا ہے کہ اچانک کچھ زیادہ پھیر بدل نہیں ہوا تو پارٹی کی صدارت کیلئے اصل مقابلہ اشوک گہلوت اورششی تھرورکے درمیان ہی ہوگا۔ اس میں گاندھی کنبہ کا جھکائو کس کی طرف ہوگا یا اس کی حمایت کس کو حاصل ہوگی، اس پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ گاندھی کنبہ کے تینوں لیڈروں پارٹی کی موجودہ عبوری صدر سونیا گاندھی ،سابق صدر راہل گاندھی اورپارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے قیادت سنبھالنے سے انکار توکیا ہے لیکن اپنی پسند کا اظہار نہیں کیاہے تاکہ یہ الزام کوئی نہ لگاسکے کہ ریموٹ ان ہی کے ہاتھوں میں رہے گا ۔جو بھی منتخب ہوگا ،انتخاب لڑکر اکثریتی ووٹ کے ذریعہ منتخب ہوگا اورپارٹی کے لیڈروں کی پسند سے ہوگا ۔
ایسی بات نہیں ہے کہ کبھی بھی کانگریس کا صدر گاندھی کنبہ سے باہر کا نہیں بنا۔ غیرگاندھی لیڈروں نے کئی بار پارٹی کی قیادت سنبھالی اوراچھی طرح سے پارٹی چلائی لیکن گزشتہ 24برسوں سے یعنی 1998سے اب تک پارٹی کی قیادت گاندھی کنبہ کے پاس ہے ۔پہلے 1998سے 2017تک سونیا گاندھی صدر رہیں پھر 2سال راہل گاندھی صدر رہے اور 2019کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی شکست فاش کے بعد عہدہ سے استعفی دیدیا اور قیادت سونیا گاندھی کے پاس پہنچ گئیں ۔تب سے عبوری صدر کی حیثیت سے وہی یہ ذمہ داری نبھارہی ہیں ۔لیکن وہ مزید یہ ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہیں ۔ادھر لیڈران کی کوششوں کے باوجود راہل گاندھی بھی تیارنہیں ہوئے۔بلکہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران ملاقات کے بعد اشوک گہلوت نے ٹوئٹ کرکے سبھی کوبتادیاکہ بارباردرخواست کے باوجود راہل گاندھی نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اس بار گاندھی کنبہ کا کوئی بھی فرد امیدوار نہیں بنے گا۔سوال یہ ہے کہ جو نیاصدربنے گا ، اس سے گروپ 23-کی ناراضگی دورہوجائے گی، کیونکہ اب بھی مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان کا کہنا ہے کہ پارٹی کا صدر’ فل ٹائم ‘ ہوناچاہئے ’پارٹ ٹائم ‘ نہیں ۔کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت اس طرح کے مسائل اٹھانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گروپ 23- کے لیڈران صدارتی انتخاب کے عمل سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے بیان بازی اب بھی جاری ہے ۔
بہرحال کانگریس کا غیر گاندھی صدر بننا بھی بہت بڑی بات ہے ، وہ بھی ایسے دور میں جب پارٹی کا بہت بڑا طبقہ چاہتا تھا کہ قیادت گاندھی کنبہ کے پاس ہی رہے۔ اس طبقہ نے آخری لمحہ تک گاندھی کنبہ کو اس کیلئے منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے ، کیوں نہیں مانے ، یہ بھی اہم سوال ہے۔دوسراکوئی اورلیڈر انتخاب کے ذریعہ پارٹی کا صدر تو بن سکتا ہے لیکن کیا وہ لیڈران کو جوڑ کر رکھ سکتا ہے اورمستقبل میں ہونے والے انتخابات میں پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتاہے ۔یہ ایک ایسا چیلنج ہے، جس سے نمٹنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔پارٹی میں اسی کو لے کر ہنگامہ بھی ہوا اورتنظیمی انتخابات کی نوبت آئی ۔بہرحال قیادت کو لے کر سوال ماضی میں اٹھا ، اب بھی اٹھ رہا ہے اورشاید انتخاب کے بعد آگے بھی اٹھے ۔کیونکہ صرف تنظیمی انتخابات کانگریس کے مسائل کا حل نہیں ہے ۔اصل مسئلہ انتخابات میں کارکردگی ہے ۔اس مسئلہ کے حل کے آثاردوردورتک نظر نہیں آرہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS