فلسطینیوں کا لہو کب رنگ لائے گا؟

0

فلسطینیوں کی زندگی صدمات ، سانحات اور قتل عام کی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دنیا کی طاقتور ترین اقوام، مہذب ممالک اور بین الاقوامی ادارے نہ ان کے بنیادی حقوق و ا گزار کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے زخموں پر مرحم رکھ پائے ہیں جو فلسطینیوں کے جو بھی ہمدردر ہیں وہ اس قدر بے بس ہیں کہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس مظلوم قوم کو دینے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی فلسطین میں رہنے والے لاکھوں لوگ جن میں ہر طبقے ، ہرمذہب کے لوگ ہیں ، ایک مسلسل حکمت عملی کے تحت اجاڑے ، برباد کیے جارہے ہیں۔ فوجی طاقت اور نسلی رقابتوں سے بھرپور اسرائیلی فوج جس کو دنیا کی بڑی نام نہاد صلح پسند اور جمہوری ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اس کو انسانیت سوز مظالم سے باز رکھنے میں ناکام ہیں۔
آج سے 40سال قبل مقبوضہ فلسطین سے لگے ہوئے ملک لبنان میں 1948میں نکابہ کے بعد اجاڑے گئے فلسطین چند کیمپوں میں منتقل کیے گئے تھے۔ جن کی تعداد اسو قت تقریباًڈیڑھ لاکھ تھی۔ یہ پناہ گزیں کیمپ لبنان کی راجدھانی بیروت سے کچھ دور فاصلے پر جنوب مغربی علاقے میں واقع تھی۔
یہ آبادی عربی بولنے والی تھی اور لبنان نے پڑوسی اور ہم مذہب اور انسانیت کے ناطے اتنی بڑی تعداد کو اپنے علاقوں میں پناہ دینا قبول کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو مقبوضہ فلسطین میں نسل پرستی اور نسل کشی سے بچ کر ان کیمپوں میں انتہائی خراب حالت میںزندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ستمبر کے وسط میں اسرائیل نے لبنان کی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنی حمایت یافتہ دائیں بازو کے گروپوں کے ساتھ مل کر ان کیمپوں پر حملہ کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 16اور 18ستمبر میں رات دن بم باری کرکے اسرائیل اور اس کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے تقریباً 3500افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
خیال رہے کہ لبنان 1975سے 1990 کے درمیان بد ترین خانہ جنگی کا شکار رہا۔ ذررائع کا کہناہے کہ یہ خانہ جنگی خارجی طاقتوں خاص طو پر اسرائیل کی سرکاری مشینری کی وجہ سے ترویج پا رہی تھی۔ اس زمانے میں فلسطینیوں کے لیے آزادی کی جنگ لڑ رہی تنظیم پی ایل او کے کارکنان آس پاس کے تمام ممالک میں سرگرم تھے اور اپنی سرزمین کو صہیونی دہشت گردوں سے آزاد کرانے کے لیے مہم چلا رہے تھے۔ اگر ہم فلسطین کی جدوجہد آزادی اور اسرائیل کی بربریت کی طویل تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اسرائیل اور اس کی سرپرستی کرنے والے مغربی ممالک اولاً پرتشدد وارداتوں ، فوجی کارروائیوں اور دہشت گردانہ ہتھکنڈوں سے مجاہدین آزادی کو پریشان کرتے رہے ہیں او ر فلسطینیوں کی نسل کشی کے ایک نکاتی فارمولے پر عمل کرتے رہے ہیں۔ مگر مغربی طاقتیں سفارتکاری اور معاہدہ سازی کے ذریعہ فلسطینیوں کو دفاعی پوزیشن میں بلکہ جوتے کے تلوے کے نیچے دباتے رہے ہیں۔ اس کی بدترین مثال اگرچہ 1992-93کا اوسلو معاہدہ ہے۔اسرائیل اسلو معاملے پر فلسطین داروں کے حامیوں کے ذریعہ عمل آوری کی توقع تو کرتا ہے مگر اس نے اس اس معاملہ کے فلسطینیوں کو دی جانے والی مراعات اور سہولتوں کو نہیں دیا ہے۔ مگر اس سے قبل بھی عالمی اداروں اسرائیل کو بچانے کے لیے مغربی طاقتیں مداخلت کرتی رہی ہیں۔
فلسطینیوں پر کون کتنے مظالم ڈھاسکتا ہے وہ اسرائیل کا اتنا بڑا ہی لیڈر بنتا ہے۔ موشے دایان، شیمون پیرز، بنجامن نتن یاہو ایریل شیرون اور حالیہ کارگزار وزیراعظم شامل ہیں۔

r اقوام متحدہ کی قرار داد یں اور دیگر عالمی لیڈروں سفارتی سرگرمیاں سمجھوتے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے یا فلسطینیوں کی آزادی یا فلسطینیوں کے حقوق کو بحال کرانے میں کوئی رول ادانہیں پائے ہیں۔
r آج سے چالیس سال قبل 1982میں صابرہ اور شطیلہ کیمپوں کے قتل عام کے بعد اقوام متحدہ کی اسمبلی میں قرار داد پاس کی گئی جس کے مطا بق 16اور 18ستمبر کو ہونے والے اس قتل عام کو نسل کشی قرار داد دیاگیا تھا۔
r اس واقعہ کو تاریخ فلسطین کا سب سے بھیانک واقعہ قرار دیا گیاتھا۔ اقوام متحدہ نے تسلیم کیا تھا اس نسل کشی کی واقعہ میں 479,000 افراد جاں بحق ہوئے تھے ۔ اس وقت ان کیمپوں کی حالت بہت خراب تھے۔ گنجائش سے زیادہ لوگ ان کیمپوں میں رہ رہے تھے۔ رہنے کے لیے صرف عارضی کیمپ تھے۔ پینے کے لیے پانی نہیں تھا اور طبی امداد اور دیگر بنیادی ضروریات کا شدید فقدان تھا۔
r فلسطینی بے روزگاری اور فاقہ کشی پر مجبو ر تھے۔ ان کیمپوں میں رہنے والوں کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ لبنان میں ملازمت کرلیں۔ اس کے علاوہ بھی فلسطینیوں پر کئی سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
r یہ وہ دور تھا جب لبنان بدترین خانہ جنگی کے دور سے گزر رہا تھا۔ ان کیمپوں کے اندر اور باہر دونوں مقامات پر فلسطینی پناہ گزینوں کے زندگی دشوار تھی۔

1884فلسطینیوں کے قتل عام میں ایریل شیرون نے انسانیت کے تین اپنی نفرت بوت کے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ لبنان میں خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل اور فوج کے انسانی اہم افسروں نے فلسطینیوں کو خوب مارا، ان کے مکانات مسمار کیے۔ عورتوں کی عصمت دری کی اور بچوں تک کو نہیں چھوڑا۔
اقوام متحدہ نے 1883میں اسرائیل کی فوج کو اس قتل عام کے لیے ذمہ دار قرار دیا تھا۔ یو این کے کمیشن نے رپورٹ دی تھی کہ اسرائیلی حکام اور افواج اس قتل عام میں شامل تھیں۔
بلجیم کی ایک عدالت نے 2002میں سابق وزیراعظم ایریل شیرون کے خلاف اس قتل عام کے زندہ بچے ہوئے لوگوں کی طرف سے جاری عرضی کو محض اس لیے سماعت کے لیے نامنظور کردیا کہ سماعت کے دوران ایریل شیرون موجود نہیں تھاجبکہ بیلجیم کی عدالت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی سرزمین میں جنگی جرائم کے لیے غیر ملکوں کے خلاف سماعت کرسکتی ہے۔
1982میں لبنان میں بدترین حالات میں رہنے والے فلسطینیوں کو مغربی طاقتوں کے حمایت یافتہ ملیشیا پریشان کررہے تھے اور خانہ جنگی اور لبنان میں بدنظمی وانارکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کررہے تھے۔ عالمی دبائو پڑنے پر امریکہ نے یقین دلایا کہ ان علاقو ںمیں پناہ گزیں مقیم ہیں ان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور دو ہفتے بعد ہی اسرائیل کی حمایت یافتہ ملیشیا نے ان کیمپوں کو گھیر کر بڑے پیمانے پر قتل عام مچانا شروع کردیا۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ 16ستمبر نے عرب آفتاب سے لے کر 18ستمبر کی دوپہر تک چلنے والی اس کارروائی میں جو کہ تقریباً 43 گھنٹے چلی۔
بڑی تعداد میں معصوم لوگ ، بچے ، عورتیں اور بوڑھے مارے گئے۔ جس بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی تھی اس میں بات کا یقین سے کہنا کہ کتنے لوگ مارے گئے تھے مشکل ہے کیونکہ لبنان جو کہ خود خانہ جنگی کا شکار ہے اور ان کیمپوں میں رہنے والے بدترین حالات میں رہ رہے تھے۔ اپنے حالات میں کیمپوں میں رہنے والے پناہ گرینوں کا ڈاٹا رکھنا ناممکن تھا۔ پھر بھی ایک اندازے کے مطابق اس کارروائی میں تقریباً 3500 تک لوگ مارے گئے تھے۔ آج اس سانحہ کو ہوئے 40سال ہوگئے ہیں لیکن فلسطین کی تاریخ پر بدترین اوراق میں یہ واقعہ آج بھی حریت پسندوں اور انصاف پسندوں کو خون کے آنسو رلا دیتا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS