ہند-چین تعلقات میں نیا موڑ

0
image:theprint.in

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
بالآخر 28ماہ کی لمبی کشیدگی اورفوجی افسران کے مذاکرے کے 16دور کے بعد ہندوستان اورچین کے مابین اس بات پر رضامندی ہوگئی کہ مشرقی لداخ کے گوگرا ہاٹ اسپرنگس علاقہ میں جنگ کی وضع میں ڈٹے دونوں ممالک کے فوجیوں کو وہاں سے ہٹالیاجائے۔اس پر عمل درآمد بھی ہوگیا۔لداخ کے اس علاقے کو پیٹرول پوائنٹ 15یعنی پی-پی-15کے نام سے جانا جاتاہے اورجس پر قبضہ کو لیکر ہندوستان اورچین کی فوجیں مئی 2020ء سے ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔ اس رضامندی کا مقصد دونوں جانب کے فوجیوں کو اپنے اپنے قبضے والے علاقے میں پیچھے بھیجنا اورکشیدگی کے دوران کھڑے کئے گئے فوجی ڈھانچے کو ختم کرکے دوسے چار کلو میٹر چوڑا ایسا خطہ بناناہے جو بفر زون یعنی غیرفوجی علاقہ ہو۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ہندوستان اورچین کے درمیان لداخ میں چلی آرہی فوجی کشیدگی اب ختم ہوگئی ہے اوراب ہندی -چینی بھائی بھائی کا محبتی راگ شروع ہوجائے گاکیونکہ کچھ علاقوں میں چین کی جارحیت ابھی برقرار ہے۔ پی پی 15کو لیکر دونوں ممالک کے درمیان جو رضامندی ہوئی ہے اس سے پہلے ہندوچین میں گلوان گھاٹی ، پینگونگ سو-اور گوگراکے پی پی 17اے کے تین جگہوں پر پیدا ہوئے فوجی تنازعوں میں رضامندی ہوچکی ہے لیکن ان چاروں جگہوں پر رضامندی کے باوجود دولت بیگ اولڈی کے دیپ سانگ اور ڈیم چوک سیکٹر کے چارڈنگ نالا جنکشن میں چین کی جارحانہ کارروائی سے پیدا ہوئے تنازعہ کا تصفیہ ابھی باقی ہے۔
یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ آخروہ چینی فوج جودہائیوں سے لداخ کے ہندوستانی علاقوں پر خاموشی سے قبضہ کرکے وہاں جمے رہنے کی عادت بناچکی تھی اس بار مئی 2020کے بعد قبضہ کئے گئے علاقوں کو ایک کے بعد ایک کیوں خالی کررہی ہے؟اس کاجواب اِن تین نکات میں ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے ۔
اوّل، چینی صدر شی جن پنگ اس وقت جس طرح کے گھریلو سیاسی بحران میں گھرے ہوئے ہیں اس میں ہندوستان پر رعب جمانا ان کیلئے بہت مہنگاثابت ہوسکتاہے۔گلوان حادثہ اورلداخ کے دوسرے علاقے میں فوجی کارروائی کرتے ہوئے صدرشی کو پوری توقع تھی کہ ہندوستانی فوج چینی فوج کے سامنے ٹک نہیں پائے گی اورگلوان پر قبضہ کرنے کے بعد وہ دولت بیگ اولڈی کے ساتھ سیاچن پر قبضہ جمالے گی۔ اس طرح کراکورم شاہراہ کو ہندوستانی فوج کے خطرے سے مستقل طور پرنجات دلاکر وہ چین میں ہیرو بن کر ابھریں گے۔ اس کارنامے کے بعد تاحیات صدر بنے رہنے اوراعلیٰ ترین قائد ہوجانے کا ان کا خواب پورا ہوجائے گا لیکن چینی کانگریس کے آئندہ ہونے والے اجلاس کو قریب آتے دیکھ انہیں اسی میں زیادہ بھلائی دکھی کہ لداخ کی کشیدگی کو ٹھنڈا کرکے ہندوستان سے ٹکراؤ کو مدعہ بننے دیاجائے۔
شی کی دوسری تشویش یہ تھی کہ اگرفوجی تصاد م کے سبب شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کی چوٹی کانفرنس میں کوئی بڑی رکاوٹ آتی ہے تواُن کی بڑی بھدہوگی۔ واضح ہو کہ ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنا بہت ضروری ہوچکاتھا۔شی اسے لیکر پہلے ہی صدمہ میں تھے کہ چین کی گیدڑ بھپتیوں کے آگے ہر دفع ڈرانے والے ہتھکنڈے بے اثر ہیں۔ آج کا ہندوستان 1962ء کا ہندوستان نہیں ہے۔ اب ہمارا ملک چین کی ہرجارحیت کا منھ توڑ جواب دینے کا اہل ہے۔ ہندوستان کی فوج نے نہ صرف چینی فوج کو لداخ کے محاذ پر کڑا جواب دیا بلکہ وزیر خارجہ جے شنکر نے دنیا کے قریب ہرپلیٹ فارم پر یہ کہہ کر چین کی فضیحت کی کہ جب تک وہ اپنی فوجیں پہلے کی پوزیشن میں نہیں لیجاتاتب تک ہندوستان اس کے ساتھ دوسرے کسی موضوع پر مذاکرہ نہیں کرے گا۔اس صورت حال میں چینی صدر کو یہ تشویش بھی ہونے لگی کہ اس کی قیادت والے ایس -سی -او چوٹی کانفرنس میں اگروزیراعظم مودی نے شامل ہونے سے منع کردیا توان کی بہت بے عزتی ہوگی۔ شاید اسی لئے 17جولائی کو 16ویں کور کمانڈر میٹنگ کے دوماہ بعد چین کو اچانک پی پی 15پر رضامندی کا ماحول بنانے کی یا دآئی۔ چین کو راہ راست پر لانے والا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ گلون حادثہ کے بعد ہندوستان نے جس مستعدی کے ساتھ عالمی سطح پر چین کے خلاف سفارتی اورجنگی قلع بندی شروع کی اس نے اس کیلئے نئی پریشانی پیدا کردی تھی۔
امریکہ کی پیش قدمی پر کواڈ کو دوبارہ فعال بنانے کی مہم میں شراکت داری کے ساتھ ہندوستان نے بشمول جاپان، آسٹریلیا، ویتنام،جنوبی کوریا،فرانس،جرمنی،برطانیہ اورفلیپنس کئی ممالک سے اپنے اقتصادی اورفوجی رابطہ سدھارنے کی جومہم شروع کی اس نے بھی چین کی پریشانیو ں میں اضافہ کیا۔ ہندوستان کی اِن ممالک کو قیادت فراہم کرنے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے بھی شی جن پنگ کو ہندوستان کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگاتھا۔ پی پی 15پر قرار یقینا چین کے ساتھ فوجی کشیدگی کم کرنے میں مفید ثابت ہوگی کیونکہ آنے والے پانچ سے دس سال ہندوستان کیلئے اقتصادی اورفوجی طاقت بڑھانے کے اعتبار سے بیحد اہم ہیں لیکن تازہ ترین رضامندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے چین کی پرانی کرتوتوں کو بھلانا بھی بڑا مہنگاثابت ہوسکتاہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چین کے سارے فیصلے فوری پریشانیوں سے نکلنے اورطویل المیعاد فوائد پر مبذول رہتے ہیںاوراُن میں سمجھوتوں کے تعین میں ایمانداری یااخلاقی ذمہ داری کی ذرا بھی جگہ نہیں ہوتی۔ موقع کے مطابق پرانے معاہدوں کو کوڑے دان میں ڈالدینا چین کی پرانی عادت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکیلے لداخ محاذ پر آج بھی چین کے سات ہزار فوجی تعینات ہیں جو کبھی بھی اس کی نیت بدل سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS