پروفیسر عتیق احمدفاروقی
اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت روکنے سے انکار کرتے ہوئے حماس کے خلاف مزید کارروائی کرنے کا اعلان کیاہے۔ امید کی ایک کرن تب دکھائی دی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 26مارچ کو تقریباً ساڑھے پانچ ماہ بعد غزہ میں اسرائیلی حملے رکوانے کی قرارداد منظور ہوئی۔ امریکہ نے قرارداد کو ویٹونہیں کیا اورناہی ووٹنگ میں حصہ لیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جب اسی طرح کی قرارداد سیکورٹی کونسل میں پیش ہوئی تھی توامریکہ نے ویٹوکردیاتھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکہ کے اس قدم سے ناراض ہیں۔ انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی مشیروں کا امریکہ کا دورہ منسوخ کردیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ جب اسرائیل جنگ بندی سے متعلق کسی قرارداد کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے تو اس کے سیکورٹی کونسل میں پاس ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتاہے۔ غزہ میںجوانسانی بحران پیدا ہوگیاہے اس سے متعلق 7 اکتوبر 2023ء کو جب حماس نے اسرائیلیوں پر تل ابیب میں خوں ریز حملہ کیاتھا تواس نے سوچابھی نہیں ہوگا ۔ اس حملے کی اتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی کسی اورنے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ غزہ کی 75فیصد سے زیادہ عمارتیں مسمار کی جاچکی ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک 32ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بچے اورخواتین اکثریت میں ہیں۔ 75ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ لاتعداد افراد ملبے میںدبے ہوئے ہیں۔ بچاؤ اورراحت کے کام کا کوئی مؤثرانتظام نہیں ہے۔ اسرائیل کے ذریعہ کی جارہی مسلسل بمباری کے سبب تھوڑا بہت جو کام ہورہاہے اس میں بھی اڑچنے پیدا ہورہی ہیں۔ زیادہ تر اسپتال مسمار کئے جاچکے ہیں۔ نہ ادویات ہیں، نہ طبی آلات ہیں ، نہ غذا ہے ، نہ پانی ہے۔ بے سہارا فلسطینی علاج نہ ہونے سے اوربھوک کے سبب مررہے ہیں۔ کبھی کبھی سمجھ میں آتاہے کہ حماس نے اسرائیلیوں پر حملہ کیاہی کیوں ؟ چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ حماس نے جو حملے کئے اس کے جائز وجوہات ہیں لیکن جب ان کے پاس اسرائیلی حملہ روکنے کی طاقت نہیں ہے، جب کوئی عرب یا مسلم ملک جنگ میں دفاعی سطح پر ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے تواس ایڈونچر کی کیا ضرورت تھی ؟ بے قصور غیرمسلح فلسطینی شہریوں ، عورتوں اوربچوں کو اس کی جو قیمت چکانی پڑی ہے اس کی مثال 21ویں صدی میں تو نہیں ملتی۔
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) نے واضح کردیاہے کہ اسرائیل نے اسے قحط کے دہانے پر کھڑی شمالی غزہ کی پٹی میں امداد پہنچانے سے مستقل طور پر روک دیاہے۔ ایجنسی کے کمشنر فلپ لازا ریمی نے سوشل میڈیا کے ذریعہ بتایاکہ ’سانحہ ہماری آنکھوں کے سامنے آنے کے باوجود اسرائیل حکام نے اقوام متحدہ کو مطلع کیاہے کہ وہ اب شمالی غزہ میں اونروا کو خوراک کے کسی قافلہ کو بھیجنے پر رضامند نہیں ہوں گے۔‘انہوں نے مزید کہاکہ یہ اشتعال انگیز اقدام ہے اورانسانوں کے بنائے ہوئے قانون قحط کے دوران جان بچانے والی امداد میں اڑچنے پیدا کرنا جان بوجھ کر انہیں موت کی نیند سلانے کے مترادف ہے۔ فلسطینی علاقوں میں حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے انکشاف کیاہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ ’نسل کشی کی اٹانومی ‘میں کہا کہ اس بات کے معقول شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی متعدد کارروائیاں کی ہیں۔ انہوں نے واضح کیاکہ اس بات کے واضح اشارے ملے ہیں کہ اسرائیل نے نسل کشی کے بین الاقوامی کنونشن کے تحت درج پانچ میں سے تین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ میں مختلف گروپ کے ارکان کو قتل کرنے اورانہیں شدید جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچانے میں ملوث رہی ہے۔ سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیل بلا ناغہ بے گناہ پریشان حال غزہ کے فلسطینیوں کا قتل عام کررہاہے۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ قتل عام کیسے رکے گا؟اگرامریکہ اورمغربی ممالک ، جو اسرائیلی جارحیت میں مددگار بنتے ہیں ، دل سے چاہیں تواسرائیل جنگ بندی کیلئے مجبور ہوجائے گا۔ کیونکہ اسرائیلی حکام نے اس بات کا اعتراف کرلیاہے کہ وہ غزہ میں حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے مقصد میں ناکام رہے ہیں۔ اگرسارے مغربی ممالک اورعرب ومسلم ممالک اسرائیل کا مکمل بائیکاٹ کردیں ، ان سے تجارتی رشتہ پوری طرح ختم کرلیں، دفاعی تعاون روک دیں ،مالی امداد بندکردیں اوراسرائیلی تمام مصنوعات کا استعمال بند کردیں تو وہ گھٹنے ٹیک دے گا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ تمام مغربی ممالک اوریہاں تک کہ اسرائیل میں بھی صیہونی جارحیت کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے ہیں لیکن چند ممالک کو چھوڑ کر ان سبھی ممالک کے حکام کا ضمیر مرچکاہے۔ غزہ میں دراصل ، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گویترس نے کہاہے کہ انروا شہریوں کیلئے آخری سہارا ہے۔ انہوں نے ان ممالک سے مطالبہ کیاہے جنہوں نے انروا کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیاہے، کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔ گویترس نے اُردن کی دارالحکومت عمان سے ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ 7 اکتوبر کے حملوں میں انروا کے ارکان کے ملوث ہونے کا الزام لگانے کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔ ویسے بھی اسرائیل کے ذریعہ لگایاگیا یہ الزام حقیقت پر مبنی نہیںمعلوم ہوتا، لیکن اس کے نتائج غزہ کے بے گناہ فلسطینی جھیل رہے ہیں۔ اسرائیل نے رفح میں فوجی آپریشن کو منظوری دے دی ہے اوروہاں پر کسی بھی فوجی مہم کا مطلب انسانی تباہی ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو اس آپریشن کے خلاف خبردار کیاہے۔ موجودہ وقت میں امریکہ اوراسرائیل کے بیچ تنازعہ کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ اسی پس منظرمیں پہلی بار امریکہ نے فوری جنگ بندی کی سیکورٹی کونسل کی قرارد اد کو ویٹونہیں کیا۔
دوسری جانب حماس بھی امریکہ سے بہت ناراض ہے۔ اس کا مانناہے کہ جنگ بندی میں رکاوٹ کی وجہ امریکہ ہے۔ حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے امریکی انتظامیہ پر الزام عائد کیاکہ وہ غزہ کی پٹی کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکی موقف کو ثالث کا موقف نہیں سمجھاجاسکتا بلکہ اسرائیل کی حمایت کی بنیاد پر قائم موقف ہے۔ امریکہ اسرائیل کا سیاسی اورفوجی شراکت دار ہے۔ اسرائیل کے ساتھ معاہدے میں مسئلہ قیدیوں اوران کی تعداد سے متعلق نہیںہے بلکہ اسرائیل فریق کا غزہ کے لوگوں کی زندگیوں کے بنیادی مسائل پر ثالثوں کو کوئی ضمانت دینے سے انکار ہے۔ حماس کی ترجیحات میں غزہ پر جنگ روکنا ، امداد لانا، بے گھر افراد کی واپسی اورتعمیر نو کا واضح منصوبہ بھی شامل ہے۔ یہ معاملہ صرف قیدیوں کی رہائی تک محدود نہیں ہے جیسا کہ اسرائیل صرف قیدیوں کی رہائی کے مسئلے کو فروغ دے رہاہے۔ حماس نے اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی ایک حقیقی تبادلہ کی صورت میں ہی ہونی چاہیے۔ جس کے نتیجے میں اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی ممکن بنائی جائے۔ تاہم اس بارے میں فوری طورپر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیاہے۔ بہرحال بین الاقوامی برادری کو اسرائیل پر فوری طور پر مستقل جنگ بندی کیلئے مؤثردباؤ ڈالنا چاہیے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب میری مبینہ تجاویز پر اقوام متحدہ کے اراکین عمل کریں۔
[email protected]
غزہ میں جنگ بندی کب اور کیسے ہوگی ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS