اعتکاف کی تعریف و فضیلت

0

سید خالد حسین:سنگاپور
برصغیر کے ممالک میں رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں بہت سے مسلمان مسجدوں میں اعتکاف کرتے ہیں اور مساجد کے کونوں میں پردوں کے پس پشت معتکف ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ اعتکاف صرف رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہی ہوتا ہے۔ دراصل اعتکاف کے لئے رمضان کا مہینہ اور اس کے آخری دس دن ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی مسجد میں کبھی بھی اور کتنے ہی وقفہ کے لئے اعتکاف کر سکتا ہے۔ بیرونی ممالک میں بھی مقیم برصغیر کے مسلمان رمضان کے آخری عشرے میں مسجدوں میں اعتکاف کرنا چاہتے ہیںلیکن چونکہ ان ممالک میں اکثر مساجد رات میں بند رہتی ہیں اس لئے مسلمانوں کو رات میں مسجد میں قیام کرنے اور اعتکاف کی اجازت نہیں ملتی۔ اس سے ان مسلمانوں کو کافی ناامیدی سی ہو جاتی ہے۔
آئیے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اعتکاف کسے کہتے ہیں اس کی کتنی قسمیں ہیں اور اس کی کیا فضیلت ہے۔ اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اْس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔ جبکہ شرعی اصطلاح میں اس سے مراد ہے “ایک مسلمان کا علائق دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی تجدید کر سکے”۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں
1۔ نفلی اعتکاف: اس کے لیے کسی خاص وقت کی تعیین نہیں ہے۔ آدمی جس وقت بھی مسجد میں داخل ہو اور اعتکاف کی نیت کر لے تو جتنی دیر مسجد میں رہے گا اسے اعتکاف کا ثواب حاصل ہوگا۔ نیت کے لئے صرف دل میں اتنا خیال کر لینا اور منہ سے کہہ لینا کافی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اعتکاف کی نیت کی۔ نفلی اعتکاف میں روزہ کی بھی شرط نہیں ہے۔
2۔ مسنون اعتکاف:رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو آخرت میں سب سے مواخذہ ہوگا اور اگر ایک آدمی نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب آخرت کے مواخذہ سے بری ہو جائیں گے۔ یعنی بعض لوگوں کے اعتکاف کر لینے سے سب کے ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔
3. واجب اعتکاف: ایسا اعتکاف جس کی منت یا نذر مانی جائے۔ مثلًا کسی شخص نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اللہ کے لئے تین دِن کا اعتکاف کروں گا۔ ایسا کہنے سے اس پر اعتکاف واجب ہو جاتا ہے۔ واجب اعتکاف میں نیت کرنا اور روزہ رکھنا شرط ہے۔
شریعت کی رو سے مسنون اعتکاف کا آغاز بیس رمضان المبارک کی شام اور اکیس کے آغاز یعنی غروب آفتاب کے وقت سے ہوتا ہے اور شوال کا چاند دکھتے ہی اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف میں بیٹھنا مسنون ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’حضور اکرمؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
اعتکاف کی فضیلت
اعتکاف میں بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’وہ(یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللّٰہ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘ (طبرانی,بیہقی، ہیثمی)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘ (بیہقی)
دورانِ اعتکاف معتکف کو درج ذیل امور سر انجام دینے چاہیں:
قرآن مجید کی تلاوت کرنا، درود شریف پڑھتے رہنا، علوم دینیہ کا پڑھنا پڑھانا، وعظ و نصیحت اور اچھی باتیں کرنا، قیام اللیل کرنا اور ذکر اذکار کرنا۔
اعتکاف کی اصل روح یہ

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS