نائن الیون کے سانحہ سے مشرق وسطیٰ اور مسلمان کیا سبق لیں؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

مشرق وسطیٰ میں ہر ہفتہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے حالات پر یا دنیا کے مسائل پر اثر انداز ہوکر بڑے بدلاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کبھی عرب بہاریہ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں انقلاب کی ایسی فضا قائم ہوجاتی ہے کہ برسوں سے حکومت و اقتدار پر قابض مطلق العنان حکمراں نہ صرف کرسی ٔاقتدار سے اتار دیے جاتے ہیں بلکہ انہیں اپنے ہی عوام کے غیظ و غضب کا شکار ہوکر جان گنوانی پڑتی ہے تو کہیں انسانی جانوں اور تہذیبوں کی ایسی تباہی نظر آتی ہے کہ عالمی جنگوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے عالمی بحرانوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتا ہے اور مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی کا شکار ہوکر جب اس خطہ کے مجبور و مقہور لوگ مغربی ممالک کا سفر کرتے ہیں تاکہ انہیں وہاں سکون و اطمینان میسر ہو سکے تو شب و روز انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی مغربی حکومتوں اور سماج و میڈیا کا وہ نفاق اور دوہرا معیار سامنے آجاتا ہے جس کو دہائیوں تک وہ چھپائے رکھے ہوئے تھے۔ حالانکہ اسی انسانی حقوق کے تحفظ کے نعرہ کے ساتھ یہی مغربی ممالک مشرق وسطیٰ میں مداخلت کرکے وہاں کی حکومتوں کو کٹھ پتلی کی طرح اپنے اشارہ پر نچاتے رہے ہیں اور مغربی مفادات کو بڑھاوا دینے والے افراد اور اداروں کو عوام کی مرضی کے خلاف حمایت فراہم کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے داخلی مسائل میں مغرب کی بیجا مداخلت کا نتیجہ ہی تھا کہ وہاں کے بعض جذباتی اور ناعاقبت اندیش نوجوانوں نے مغرب اور ان کے تمام حلیف عناصر کے خلاف مسلح جنگ کا اعلان کر دیا جنہیں وہ اپنی زمین، تہذیب و ثقافت اور اپنی آزادی کا دشمن گردانتے تھے۔ اس مسلح جنگ میں ان مسلم نوجوانوں کو ابتدائی مرحلہ میں معمولی کامیابی اس اعتبار سے ملی کہ وہ افغانستان سے سوویت فورسز کے انخلاء کے بعد مرکز اسلام سعودی عرب کی سر زمین سے امریکی فوج کو نکلوانے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن ان کی یہ کامیابی ان کی موہوم کامیابی تھی کیونکہ سعودی عرب سے امریکی فوج نکلی ضرور لیکن اس سے خلیجی ممالک میں امریکی اثر و رسوخ کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اس کی جڑیں مزید گہری ہوتی چلی گئیں۔ امریکہ کو بس ایک عرب سرزمین سے منتقل ہوکر دوسرے عرب ملک میں اپنا بیس تیار کرنے کی زحمت گوارہ کرنے کی نوبت پیش آئی۔ اس کے برعکس مسلم نوجوانوں کے ایک طبقہ نے مثبت جہت فکر کو کھو دیا اور مغرب کے بنائے ہوئے پھندے میں ایسا پھنسے کہ وہ دہشت گردی کے جہنم میں گر گئے اور جس کا شکار مغرب سے زیادہ خود مسلم ملک، سماج اور معاشرہ ہوگیا۔ دہشت گردی کی جس کوکھ نے القاعدہ کو جنم دیا تھا وہ بانجھ پن کا شکار ہوکر سونی نہیں ہوئی بلکہ داعش، شباب، داعش خراسان اور لشکر طیبہ وغیرہ جیسے ناموں کے ساتھ مسلم دنیا کے الگ الگ خطوں میں پھیل گئے اور ملک کے ملک تباہ ہوگئے۔ خود جدید مغربی سامراج کا مرکز امریکہ اس کی زد میں آیا اور گیارہ ستمبر 2001 کو پیش آنے والا یہ سانحہ نائن الیون کے نام سے تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہوگیا۔ اس واقعہ سے مغربی دنیا کو یہ موقع ہاتھ آ گیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک عالمی اتحاد تشکیل دے اور پہلے سے زیادہ قوت اور شدت کے ساتھ مسلم ممالک کی تباہی کا راستہ ہموار کر دے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغربی تہذیب کے امام امریکہ کے قلب میں نائن الیون کو کیا گیا دہشت گردانہ حملہ عالمی سطح پر تبدیلی کا وہ بنیادی نقطہ تھا جس سے صرف مشرق وسطی ہی متاثر نہیں ہوا بلکہ وہاں سے اسلام اور مسلم دشمنی کا وہ بھوت بھی کھل کر بھیانک طور پر سامنے آ گیا جس کو ہم اسلاموفوبیا کے نام سے جانتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام اور مسلم دشمنی کا یہ کلچر مغرب میں آج کی پیداوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کے آثار و قرائن صلیبی جنگوں کے آغاز سے ہی پائے جاتے ہیں۔مغربی سامراج کے عہد عروج میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جن کو اڈوارڈ سعید نے خاص طور سے اپنی معروف زمانہ کتاب ’اورینٹلزم‘میں بے نقاب کیا ہے، لیکن ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ نائن الیون اکیسویں صدی کا ایسا سانحہ ہے جس نے عہد جدید کا رخ ہی بدل دیا اور مسلم معاشرہ کو مغربی دنیا کے جنونی عتاب کا شکار بنا دیا۔ انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنی جنگیں مسلم دنیا کے خلاف لڑی گئی ہوں جتنی اس حادثہ کے بعد مسلم ممالک پر تھوپی گئیں اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اس کی قیمت چکائی۔ امریکہ میں کئے جانے والے بیشتر سروے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول ختم نہیں ہوا ہے اور نائن الیون ایک بنیادی عامل کے طور پر کام کرتا ہے۔
نائن الیون نے ایک دوسری قسم کی دہشت گردی کو جنم دیا۔ اس کے ردعمل کے طور پر اس حملہ کے بعد امریکہ میں دائیں بازو کی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ مسلمانوں پر حملوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ معروف امریکی میگزین ’فورن افیئرس‘ نے نومبر 2021 میں جو شمارہ شائع کیا تھا اس کے سر ورق پر جو عنوان چھاپا گیا تھا وہ تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ کون جیتا‘؟ میگزین کے اس شمارہ میں یہ بتایا گیا تھا کہ امریکہ میں 2020 میں بڑے پیمانہ پر دہشت گردانہ حرکتیں ہوئیں جن میں سے دو تہائی واقعات میں سفید فام نسل پرست اور بائیں بازو کے لوگ ملوث تھے۔ دوسری تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر حملے مسلمانوں پر ہوئے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا بلکہ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی ہر جگہ پہنچ گیا۔ خود ہمارا ملک ہندوستان گزشتہ آٹھ برسوں سے اسلاموفوبیا کے جس مرض میں مبتلا ہے اس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی۔ ہندوستان کے بہت سے تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ 2002 میں گجرات کے اندر مسلمانوں کا قتل عام اس وحشت ناکی کے ساتھ اس لئے کروانا ممکن ہو سکا تھا کیونکہ نائن الیون کی وجہ سے عالمی سطح پر اس وقت مسلمانوں کے خلاف جذبات بہت منفی ہوگئے تھے۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن اس بات کا اقرار کرنا بھی ضروری ہے کہ دہشت گردانہ کارروائیوں اور تشدد آمیز افکار کی ترویج سے مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا۔ مسلم نوجوانوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہوئی اور اپنی پے بہ پے ناکامیوں کے سبب ان میں مزید غم و غصہ کا رجحان پیدا ہوا جس کے نتیجہ میں ان کا ردعمل مثبت رخ اختیار نہیں کر سکا۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ مغرب کی اصل قوت کا راز ان کی ملٹری بالادستی یا اقتصادی تفوق میں مضمر نہیں ہے بلکہ وہ علمی تفوق اس کی اساس ہے جس کی وجہ سے وہ افکار و علوم کو جنم دیتے ہیں۔ یہی افکار و علوم ان کی مادی، فکری اور اقتصادی و سیاسی قوت کو سہارا دیتے ہیں۔ اگر مسلم دنیا کو مغرب کی مابعد استعماری محکومیت سے آزاد ہونا ہے تو پہلے انہیں مغرب کو علم و فکر کے میدان میں مغلوب کرنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو مسلم دنیا کو کبھی بھی اس ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس کا شکار آج وہ ہو چکی ہے۔ اس کے لئے اولین ذمہ داری مسلم نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل کا دائرہ درست کریں اور اپنی انرجی کو صحیح سمت میں خرچ کریں۔ واضح رہے کہ مغرب کے ذریعہ ہتھیار سے زیادہ فکری یلغار کے نرغہ میں مسلم دنیا اور مسلم نوجوان ہیں۔ فلم اور آرٹ کے نام پر نیٹفیلیکس، ڈیزنی اور ہالیووڈ جو کھیل کھیل رہا ہے اور خاموش جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اس کا اندازہ ’ڈاکٹر اسٹرینج‘ ’اٹرنلس‘جیسی فلموں اور شوز سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی ہفتہ خلیجی ممالک اور مصر نے نیٹفلیکس کو کہا ہے کہ وہ ایسے تمام مواد اپنے پلیٹ فارم سے ہٹائے جو اسلامی قدروں اور عرب معاشرہ کی روایات سے میل نہیں کھاتے۔ اس سے قبل بھی ڈیزنی اور پکمارکس سے فلم میں تبدیلی کے لئے کہا گیا تھا جس کو انہوں نے قبول نہیں کیا اور آزادیٔ رائے کا بہانہ بناکر اس اپیل کو مسترد کر دیا۔ اس لئے مسلح جنگ کے مقابلہ آج فکری محاذ پر جاری جدید سامراجی یلغار کا موثر طور پر مقابلہ کرنا پہلی ترجیح قرار پائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS