محمد حنیف خان
ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی جڑیں حد درجہ گہری ہیں،جنہیں کتنا بھی کھودا جائے انہیں اکھاڑ کر پھینکا نہیں جاسکتالیکن یہ افسوسناک ہے کہ اس کی جڑیں وہ لوگ کھود رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں زمام حکومت ہے۔ مذاہب اور تہذیبیں کسی کے حکم سے نہ تو اپنا قالب بدلتی ہیں اور نہ ہی انہیں تشکیل دینے والے عناصر سے خود کو الگ کرتی ہیں۔مگر چونکہ اہل اقتدار خود کو ایک جمہوری ملک کا ذمہ دار سمجھنے کے بجائے اس پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان دونوں ان کی رہنمائی میں ان کے مطابق چلیں۔ان کی خواہش ہے کہ اسلام اور مسلمان دونوں کو ان کی اپنی جڑوں سے کاٹ دیا جائے اور انہیں ایک ایسے مذہب کا پیروکار بنادیا جائے جو اسلامی تصور کے بجائے ان کے ذریعہ پیش کردہ تصورات کے مطابق زندگی گزاریں۔لیکن ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں ہر مذہب کے اپنے اپنے تصورات ہوتے ہیں جو انہیں دوسروں سے مختلف بناتے ہیں۔یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے کہ ہندوستان میں متعدد مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہبی تصورات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔اگر کسی نے ان مذاہب کے تصورات میں تبدیلی کی کوشش کی تو نہ صرف ملک کا تنوع ختم ہوگا بلکہ اس سے دوسرے مذاہب بھی خطرے میں پڑجائیں گے جو آئین ہند کی روح کے منافی ہے۔
اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں پر نہ صرف زمینی سطح پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے بلکہ اب ان کے تصورات و عقائد پر کھلے عام حملے کیے جارہے ہیں اور ان کو کھلے عام یہ ہدایات دی جا رہی ہیں کہ وہ کن باتوں کو مانیں اور کن باتوں سے وہ دست کش ہوجائیں۔مسلمان کسی کے ایسے حکم کے پابند نہیں ہیں جوان کے مذہبی تصورات کے برخلاف ہو۔
حال ہی میں ایک خبر رساں ویب سائٹ کو دیے گئے انٹر ویو میں آر ایس ایس کے سینئر عہدیدار رام مادھونے کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے ہندوستان کا تصور رکھتے ہیں جس میں مسلمان دوم درجے کے شہری ہیں اور ان کو ہمیشہ دوم درجے کا ہی بن کر رہنا ہوگا۔ رام مادھو آر ایس ایس اور حکمراں پارٹی بی جے پی دونوں میں اہم ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔وہ ان دونوں میں پل کا بھی کام کرتے ہیں۔وہ آر ایس ایس سے تصورات و نظریات کو اخذ کرکے بی جے پی کو عمل کے ٹریک پر ڈالتے ہیں۔جس وقت جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی اور بی جے پی کی حکومت تھی، رام مادھوہی وہاں کے ذمہ دار تھے اور انہوں نے ان دونوں پارٹیوں کو ایک ساتھ مل کر حکومت کی راہ پر ڈالا تھا۔کسی بھی مسلمان کو کسی تنظیم یا فرد سے کوئی لینادینا نہیں ہے لیکن کوئی فرد،تنظیم یا حکومت اگر اسلام اور مسلمانوں کے تصورات کو نشانہ بناتی ہے تو یقینا نہ صرف اس کا جواب دینا ضروری ہے بلکہ اس کے مضمرات سے واقف کرانا بھی ہماری مہ داری ہے۔رام مادھو نے اپنے اس انٹرویو میں چار باتوں کی طرف توجہ دلائی اور یہ بات صاف لفظوں میں کہی کہ مسلمان اگر ان کو ترک کردیں تو آپسی ہم آہنگی کا معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔
ملک کا ہر فرد چاہتا ہے کہ ماضی کی طرح آپسی ہم آہنگی کا معاشرہ قائم ہو،ہر ایک کا ایک دوسرے پر بھروسہ ہو،ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں۔لیکن اگر کوئی چاہتا ہے کہ ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اس کے تصورات کو ترک کردیں تو ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ماضی کا ہم آہنگ معاشرہ دونوں کے اپنے اپنے مذہبی تصورات کے ساتھ ہی تھا اور کسی کو کوئی پریشانی لاحق نہیں تھی تو اب ایسا کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔رام مادھو نے جو چار باتیں کہیں اور ان پرجدید معاشرے کی بنیا د پر زور دیا وہ یہ ہیں۔اول مسلمانوں کو ’مسلم امہ ‘ کا تصور ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ دوم کافر کا تصور ختم کردینا چاہیے۔سوم،جہاد سے دستبردار ہوجانا چاہیے اور چہارم مسلمانوں کو سلاطین ہند سے برأت کا اظہار کرنا چاہیے۔ان میں تین کا تعلق اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے جب کہ ایک کا تعلق تاریخ سے ہے جس سے ہزار کوششوں کے باوجود ہندوستان بھی برأت کا اظہار نہیں کر سکاہے۔
’’مسلم امہ‘‘ایک ایسا تصور ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔جس کا منبع مصدر حدیث نبویؐ ’’المسلم اخ المسلم‘‘کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔یہ اسلامی تصور نہ صرف ایک دوسرے کا رشتہ مضبوط کرتا ہے بلکہ ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت کی بھی دعوت دیتا ہے۔ اس سے انسانی عظمت اور انسانیت کو جلا ملتی ہے۔اگر ایک مذہب کے ماننے والے آپس میں ایک دوسرے کو بھائی تصور کرتے ہیں تو اس سے آر ایس ایس یا اس کے تصورات و نظریات کے حامل لوگوں کو کیوں تکلیف ہوتی ہے؟اس کی ایک وجہ بالکل سامنے ہے۔حال ہی میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو عہدیداران نے نبی کریم حضرت محمد مصطفیؐ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں دریدہ دہنی کی اور ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،اس کے برعکس کانپور میں ان کے خلاف معاندانہ کارروائیاں شروع کردی گئیں۔چونکہ یہاں کی حکومت کا رویہ اب تک یہی رہا ہے کہ اس نے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی آواز کو آواز ہی نہیں سمجھا، وہ ان کے ساتھ کیڑے مکوڑوں والا برتاؤ کرتی رہی ہے خواہ وہ تین طلاق ہو ،سی اے اے اور این آر سی ہو یا پھر اہانت رسولؐ کا معاملہ ہو۔ ایسے میں جب اسلامی ممالک نے ہندوستان کے خلاف آواز اٹھائی تو حکومت کو پارٹی کے دریدہ دہن عہدیداران کو ’’شرارتی عناصر ‘ تک کہنا پڑا اور ان کو ان کے عہدوں سے برطرف کرنا پڑا۔در اصل آر ایس ایس مسلمانوں کو اسی اسپرٹ اور روح سے کاٹ دینا چاہتی ہے تاکہ ان کی مدد اور تعاون کے لیے اخوت کی بنیاد پر بھی کوئی ملک آ واز نہ اٹھائے۔کافر کا تصور اسلام کو ماننے اور نہ ماننے سے ہے ،جیسے ہندو ازم کو ماننے والا سناتنی ہے اور نہ ماننے والے غیرسناتنی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں ہندوؤں کو لفظ ’کافر ‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے لیکن ان کا اصرار ہے کہ مسلمان ہندوؤں کو کافر نہ کہیں۔ اسی طرح وہ مسلمانوں کو جہاد کے تصور سے الگ کردینا چاہتے ہیں۔ جہاد ایک ایسا تصور ہے جس کو بہت خوفناک بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ہندوستان کے پس منظر میں جہاد کا کوئی تصور نہیں ہے کیونکہ جہاد کے بھی اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ ہندوستان کا مسلمان اپنے ہی ملک کے خلاف جہاد کا حامی نہیں ہے اور نہ یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے ایسے میں لفظ ’جہاد‘ کا استعمال کرکے وہ مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اسی طرح سے رام مادھو نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سلاطین ہند کی مذمت کرنی چاہیے اور ان سے اپنی برأت کا اعلان کرنا چاہیے۔
دراصل مذمت اور برأت کے اعلان کے پس پشت نفسیاتی عوامل کارفرما ہیں، اس کے ذریعہ وہ نفسیاتی سطح پر مسلمانوں کو زک پہنچانا چاہتے ہیں اور یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جدید ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت یہی رہ گئی ہے کہ وہ سلاطین ہند کے عمل پر شرمندہ ہیں۔وہ انہیں ذلت و نکبت کے ساتھ زندگی جینے کی دعوت دے رہے ہیں۔ حالانکہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جس طرح سے مسلم سلاطین کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اور اچھا یا برا جو بھی عمل سلاطین ہند نے کیا ہے ،اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں موجودہ ہندوستان کا مسلمان اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے۔جس شرمندگی کے ساتھ مسلمانوں کو زندگی جینے کی وہ دعوت دے رہے ہیں کیا ان میں ہمت ہے کہ ہندوستان کے دلتوں کے ساتھ آدی کال سے برہمنوں نے جو رویہ اختیار کیا اور جس طرح سے ان پر سماجی سطح پر مظالم کیے کیا وہ اس پر شرمندگی اور منو اسمرتی کے مصنف منو کی مذمت کے لیے انہیں دعوت دیں گے؟
اس لیے ماضی کے بجائے حال میں آئین ہند کے مطابق زندگی جی کر مستقبل کو سنوارنے اور ملک کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔کسی کے مذہبی عقائد و تصورات پر حملے کرکے، تاریخ کو بنیاد بنا کر اسے دوم درجے کا شہری بنا کر ہندوستان ترقی نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی ذہنی تفوق کے ساتھ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے مطابق اپنے اپنے مذاہب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے برابری کے ساتھ آگے بڑھا جائے اور ملک کو ترقیات سے ہمکنار کیا جائے۔
[email protected]