گھٹتی سانسوں کا علاج کیا ہے؟: عبدالماجد نظامی

0
گھٹتی سانسوں کا علاج کیا ہے؟: عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

ماحولیات کا صاف ستھرا رہنا بہتر اور خوشحال زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگر سرکاریں اور ادارے ان کے تحفظ میں ناکام ہوجائیں تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے سرکاری نظام کی ترجیحات میں بہت بڑی کمی ہے اور جب تک اس کو حل نہیں کر لیا جائے ایک صحتمند سماج کی تشکیل کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ماحولیاتی آلودگی صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس کے اثرات اس قدر مضر ہیں کہ مسموم فضاء میں سانس لینے کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال تقریباً65لاکھ قیمتی جانیں اس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہمارا ملک عزیز ہندوستان بھی اس فہرست میں کچھ اچھی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر ہم آب و ہوا کی آلودگی سے متعلق گرین پیس کی2022کی رپورٹ کو ہی دیکھ لیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری صورت حال اس محاذ پر بھی کتنی بدتر ہے۔ گرین پیس کے سروے کے مطابق ہماری رینک8ہے۔ یعنی دنیا کے وہ تمام ممالک جن کی درجہ بندی آب و ہوا کی آلودگی کی بناء پر کی گئی ہے، ان میں ہمارے ملک کی فضاء اس قدر گندی ہوچکی ہے کہ آب و ہوا کے اعتبار سے ہم دنیا میں آٹھویں سب سے خطرناک ملک ہوچکے ہیں۔ ان دنوں ہندوستان کے دو بڑے اور امتیازی شان رکھنے والے شہر اپنی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے چرچہ میں ہیں۔ یہ دونوں شہر دہلی اور ممبئی ہیں۔ دہلی کو جہاں ملک کی سیاسی راجدھانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، وہیں ممبئی کو بجا طور پر اقتصادی راجدھانی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ان دونوں شہروں میں حکومت کے اعلیٰ عہدیداران، اہل ثروت اور تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں کام کاج کرنے والے لوگ رہتے ہیں جو ہر قسم کی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں۔ ان سب کے باوجود دہلی اور ممبئی میں آلودگی کا مسئلہ اس قدر سنگین ہوچکا ہے کہ عوام و خواص سب کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوچکی ہیں۔ جو لوگ ملک کے دوسرے حصوں سے یا قرب و جوار کے چھوٹے شہروں اور گاؤں سے اپنی مختلف ضروریات کی تکمیل کے لیے روزانہ ان شہروں کا رخ کرتے ہیں، وہ بھی کئی طرح کی پابندیوں کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ آب و ہواکو اس لائق بنایا جائے کہ سانسیں گھٹ کر رک نہ جائیں۔ اس مقصد کی خاطر اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے اور موسم سرما کی چھٹیاں وقت سے پہلے ہی دے دی گئی ہیں۔ آس پاس کی ریاستوں سے شہر میں داخل ہونے والی بسوں اور ٹرکوں کو روک دیا گیا ہے اور دہلی میں اوڈ اور اِیون نظام کو دوبارہ سے نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مشینی زندگی سے نکلنے والے دھوؤں کے طوفان سے اس پرشور شہر کو کچھ سکون ملے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سالانہ رسم سے کیا فرق پڑے گا؟ جب یہ مسئلہ ہر سال ابھر کر سامنے آ جاتا ہے اور اتنے برسوں میں اس کو اب تک حل نہیں کیا جا سکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاروں نے اب تک اس کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے اور ماحولیات کی صفائی کو انہوں نے اپنے ایجنڈوں میں سرفہرست نہیں رکھا ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ ایسا ہے جس سے امیر و غریب، مزدور اور مالک، بچے، بوڑھے اور جوان سبھی متاثر ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی نظریہ یا فلسفہ کا ماننے والا ہو کیونکہ ہم سب کے لیے ایک ہی فضاء موجود ہے جس کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا رول اس سلسلہ میں یہ ہے کہ وہ اپنے کھیتوں کو صاف کرنے کے لیے ان میں آگ لگاتے ہیں جس کی وجہ سے سیاہ راکھ کے ذرات اڑ کر آتے ہیں اور دہلی اور اس کے اطراف کو متاثر کرتے ہیں تو آخر اب تک سرکاروں نے اس کا مؤثر حل کیوں نہیں نکالا جب کہ ماہرین نے ہر سال اس سلسلہ میں کئی اہم مشورے پیش کیے ہیں جن کو نافذ کرکے اس کا حل پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان اس ماحولیاتی آلودگی کے سنگین مسئلہ کو حل کرنے میں اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو جنوبی کوریا کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جنوبی کوریا کو جب اس مسئلہ کو حل کرنا ضروری معلوم ہوا تو اس نے 2012 میں ایک گرین پارٹی تشکیل دی اور اس موضوع کو سیاسی بحث و مباحثہ اور ووٹ کا معاملہ بنایا۔ اس پر ہر پہلو سے چرچے ہوئے۔ ترجیحات طے کی گئیں۔ ایک ہدف تیار کیا گیا اور جس قدر فنڈنگ کی ضرورت ہوئی، اس کو مہیا کرنے کی ذمہ داری سرکار پر عائد کی گئی۔ ان کوششوں کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ سیئول کے علاوہ اس کے دو بڑے شہر آج اپنی فضائی صفائی میں مثالی بن چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی جب تک اس کو مین اسٹریم پالیٹکس کا حصہ نہیں بنایا جائے گا اور سیاسی پارٹیاں جب تک یہ خوف محسوس نہیں کریں گی کہ ماحولیات کی صفائی کو یقینی نہ بنانے کی صورت میں انہیں اقتدار سے باہر بھی جانا پڑ سکتا ہے تب تک یہ پارٹیاں اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتی رہیں گی اور ملک کا عام انسان ڈاکٹروں کے دروازے پر بھیڑ لگائے اپنی چند سانسوں کو بچانے کے لیے اپنی گاڑھی کمائی کا بیشتر حصہ خرچ کرتا رہے گا۔ اس کی وجہ سے ہماری اقتصادی ترقی بھی متاثر ہوگی اور بچوں کی زندگیاں اور ان کی تعلیم و صحت ہر شے داؤ پر لگی رہے گی۔ اس سلسلہ میں ادنیٰ کوتاہی بھی بہت نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ صرف دہلی اور ممبئی کی ہی فضاء کو صاف کرنے اور بہتر آب و ہوا کی فراہمی کا انتظام نہ کیا جائے بلکہ ملک گیر سطح پر اس کا ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ چوک چوراہوں تک پر بھی اس کی بات ہو اور اس معاملہ کو ایک طے شدہ مدت کے اندر حل کر لیا جائے۔ کیونکہ صحتمند انسانی آبادی ہی ایک ترقی یافتہ ملک کے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیابی دلا سکتی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS