انتخابی اخلاقیات اور میر کارواں کا طرز عمل

0

ہندوستان جیسی متحرک جمہوریت میں یہ ضروری ہے کہ ملک میں اچھی حکمرانی کیلئے بہترین شہریوں کو عوامی نمائندوں کے طور پر منتخب کیا جائے۔ جمہوریت کے اس نظام میں ووٹروں کو امیدواروں کے انتخاب یا مسترد کرنے کا بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ موقع دیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی جمہوریت اسی یقین پر کام کرتی ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے۔یہ انتخابی عمل ہی ہے جو ہماری جمہوریت کو منتخب افراد کے معیار اور ان کی کارکردگی کے ذریعہ موثر بناتا ہے۔لیکن آج ہندوستان میں صورتحال بالکل بدلی ہوئی ہے۔ انتخابی عمل اورا میدواروں کی کارکردگی کو پس پشت رکھ کر فرقہ واریت اور جارحانہ قوم پرستی کوآگے بڑھایاجارہاہے تو دوسری جانب فلاحی اسکیموں کاغیر جمہوری سیاسی استعمال کرکے انتخابی اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اس کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔ ان پانچوں ریاستوںکے اسمبلی انتخابات شروع ہوچکے ہیں۔ میزورم میں مکمل پولنگ کے ساتھ چھتیس گڑھ میں بھی پہلے مرحلہ کی پولنگ 7نومبر کوہوئی، اب 17نومبر کو مدھیہ پردیش کے ساتھ دوسرے مرحلہ کی پولنگ ہونی ہے۔ راجستھان میں 23نومبر اور تلنگانہ میں30نومبر کوووٹ ڈالے جائیں گے۔ ان اسمبلی انتخابات کو ایک طرح سے آئندہ لوک سبھا انتخاب 2024 کیلئے سیمی فائنل مانا جارہا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں ان ریاستوں میںآئندہ لوک سبھا انتخاب کو سامنے رکھتے ہوئے ہی محنت بھی کر رہی ہیں۔خاص کر بھارتیہ جنتاپارٹی کیلئے ان انتخابات میں ’کرو یا مرو‘ کی صورتحال ہے۔کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان اصل مقابلہ تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہے۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ کے معاملات میں بی جے پی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں کی کانگریس حکومتوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں عوام کا اعتماد جیت لیا ہے، کیونکہ وہاں کے گزشتہ انتخابات میں جو وعدے کیے گئے تھے وہ نہ صرف پورے ہوئے، بلکہ اعلان کردہ مدت کے اندر ان پر عمل درآمد کیا گیا۔دوسری طرف راجستھان میں وہاں پرانی پنشن اسکیم، سستے گیس سلنڈر وغیرہ کے وعدے بھی پورے ہوئے ہیں۔وعدوں کی تکمیل کی وجہ سے ان دونوں ریاستوں میں حکومت مخالف جذبات بہت کم ہیں۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش میں ہونے والی بدعنوانی اور اعلان کردہ اسکیموں کے عدم نفاذ کی وجہ سے بی جے پی حکومت کے خلاف شدید ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے بڑھتے ہوئے امکانات نے بھی بی جے پی کے ہوش اڑارکھے ہیں۔
ان ریاستوں کے عوام کو راغب کرنے کیلئے کچھ وعدے منشور کے ذریعے اور کچھ تقریروں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔ صاف شفاف، غیر جانبدار اور آزادانہ انتخابات کے بلند بانگ دعوے کرنے والی بی جے پی اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ انتخابی اخلاقیات تک کو طاق پر رکھ دیا ہے۔کل تک انتخابی وعدوں کو ’مفت کی ریوڑی‘ قرار دینے والے وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنے ہر انتخابی جلسہ میں دونوں ہاتھوں سے مفت کی ریوڑیاں لٹارہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی حکومت اگلے پانچ برسوں تک ملک کے 80 کروڑ لوگوں کو مفت کھانا فراہم کرے گی۔ دوسرے لفظوں میں پانچ کلو چاول یا گندم فی کس ماہانہ مفت تقسیم کی جائے گی۔ یہ یقینی نہیں ہے کہ اگلے سال لوک سبھا انتخابات کے بعد ان کی حکومت موجود رہے گی یا نہیں، لیکن انہوں نے پانچ سال قبل ہی فیصلہ کا اعلان کر دیاہے۔ وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان کی وزارت عظمیٰ تاحیات نہیں بلکہ اگلے سال جون تک ہی ہے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق اور جمہوری روایت کی رو سے وہ اگلے جون تک ہی مفت کھانا دینے کا فیصلہ یا اعلان کرسکتے ہیں۔ اگلا فیصلہ بعد میں آنے والی حکومت کرے گی۔ اگلے لوک سبھا انتخابات کے موقع پر ان کی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ منشور میں انہیں اگلے پانچ سال تک مفت کھانا دینے کی پیشکش یا وعدہ کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے اپنے ’ حق‘ کا استعمال کرتے ہوئے چھتیس گڑھ جا کر پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران مفت کھانا دینے کا فیصلہ اور اعلان کیا۔
میرکارواں ہونے کے ناطے وزیراعظم کو انتخابی ضابطوں پر عمل کر کے روشن مثال قائم کرنی چاہیے تھی، لیکن وہ خود ہی انتخابی اخلاقیات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ عمل ہندوستان کی متحرک جمہوریت اور پارلیمانی انتخابی عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اپوزیشن نے بجا طور پر الزام لگایا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم کا اس طرح سے کسی فلاحی اسکیم کا اعلان کرنا انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے اوراس سلسلے میں فوری طور پر سخت کارروائی کی جانے چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS