فسادات کی وجہ کیا ہے؟

0

وطن عزیز ہندوستان کی خوب صورتی، اس کی طاقت کثرت میں وحدت ہے۔ یہاں مختلف مذاہب و تہذیب کے لوگ رہتے ہیں، کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ دیا جائے تو باقی سبھی لوگوں کا یقین اس بات پر رہا ہے کہ وطن کو آگے بڑھانے کے لیے حالات کا پرامن رہنا ضروری ہے، ہمارا بھائی چارہ ہی ہماری اصل طاقت ہے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دی جائے، مذہب کے نام پر انہیں بانٹ دیا جائے، اس لیے حال ہی میں تہواروں پر ہونے والے فسادات کی اصل وجہ کو جاننے کی کوشش کی جانی چاہیے، یہ سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ ان فسادات سے فائدہ کس کا ہوگا، نقصان میں کون رہے گا۔ پہلے پرب تہواروں کے موقع پر اتنے زیادہ فسادات نہیں ہوتے تھے، کہیں فساد ہو گیا تو الگ بات ہے، ورنہ زیادہ تر جگہوں پر لوگوں کی یہ کوشش رہتی تھی کہ تہوار کسی کا بھی ہو، اس موقع سے بدامنی نہ ہو۔ لوگ باضابطہ محلہ کمیٹیاں بنایا کرتے تھے جن میں مختلف مذاہب کے ذی ہوش لوگوں کو شامل کیا جاتا تھا، ا ن کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ شرپسند عناصر پر نظر رکھیں، حالات کو بگڑنے سے روکیں اور اس کے باوجود حالات اگر بگڑ جائیں تو امن برقرار رکھنے کے لیے فوری اقدامات کریں، پولیس کو مطلع کریں۔ ایک دوسرے کے پرب تہوار کے موقع پر لوگ سبیلیں لگایا کرتے تھے، پانی اور شربت کا انتظام کیا کرتے تھے، بہار اور یو پی میں محرم کے جلوسوں میں شامل لوگوں کے لیے ہندوؤں کی طرف سے اس طرح کی سبیلیں کسی کو حیرت میں نہیں ڈالتی تھیں، مہاراشٹر میں گنیش اتسو کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے بھی ایسی سبیلیں لگا کرتی تھیں لیکن آج کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ یہ حیرت کی بات ہے اور سمجھنے کی بھی بات ہے کہ حالات کی اس تبدیلی کی اصل وجہ کیا ہے؟ یہ فسادات یوں ہی ہو رہے ہیں یا کرائے جا رہے ہیں اور انہیں کرانے کا کیا مقصد کچھ اور ہے؟ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ لیڈران جو خود کو انسان دوست ثابت کرتے رہتے ہیں، فساد ہونے پر متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں کو ہمت دینے کے بجائے ایک ٹوئٹ سے کام چلا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں ان کا وہ اثر نظر نہیں آتا جو وہ دکھانا چاہتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان امن پسند لوگوں سے خالی ہو گیا ہے۔ اس ملک کے بیشتر لوگ آج بھی امن پسند ہی ہیں۔ عام طور پر امن پسند لوگوں کو، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، فسادات سے نہ کبھی فائدہ ہوا ہے اور نہ کبھی انہوں نے تشدد کی آگ پر مفاد کی روٹی سینکنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔ ان کی آج بھی یہی کوشش رہتی ہے کہ فسادات نہ ہوں اور اگر فسادات ہو جائیں تو وہ اپنی اور دوسروں کی جانیں کیسے بچائیں۔ 2 اپریل، 2022 کی شام شہر کرولی میں نَو سموتسر کے موقع پر شوبھا یاترا نکالی جا رہی تھی کہ تشدد پھوٹ پڑا۔ دکانوں اور مکانوں کو جلائے جانے کی خبریں آنے لگیں۔ خوف کا دائرہ پھیل گیا تھا۔ اس جگہ سے 100 کلومیٹر دور سیتاباڑی کے سٹی مال تک خوف کا دائرہ پھیل چکا تھا۔ سٹی مال میں کپڑوں کی دکان چلانے والی مدھولیکا سنگھ نے شور کی آوازیں سنیں، لوگوں کو دکانیں بند کرتے ہوئے دیکھا تو کئی لوگوں کو اپنے گھر میں چھپا لیا۔ ان لوگوں میں 15 مسلمان تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ مدھولیکا سنگھ جیسی انسان دوست خواتین کی کمی ہے، ہر فساد میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی طرف سے ایسی شخصیتیں ابھر کر سامنے آتی رہتی ہیں جو یہ احساس دلاتی ہیں کہ انسانیت پوری طرح ختم نہیں ہوئی، انسان دوست لوگ آج بھی ہیں مگر ان لوگوں میں بروقت جرأت کا مظاہرہ کرنے والے لوگ کم ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو فساد نہیں چاہتے، خون خرابہ نہیں چاہتے مگر فسادیوں کے سامنے مجبور بنے رہتے ہیں۔ اپنی اور اپنوں کی جان بچانے کا خوف ہی ان پر اتنا حاوی ہوتا ہے کہ وہ محلوں کو لٹتے ہوئے، گھروں کو جلتے ہوئے، انسانوں کو مرتے ہوئے دیکھ کر بھی خاموش رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی موجودگی میں شرپسند عناصر کی تعداد زیادہ لگتی ہے، وہ زیادہ طاقتور نظر آتے ہیں مگر ان حالات کو بدلنا ہوگا۔ انسانیت کی باتیں کرنے والے لیڈروں کو امن قائم رکھنے کے لیے آگے آنا ہوگا، پولیس پر انہیں یہ دباؤ بنانا ہوگا کہ تہواروں کے موقع سے سیکورٹی کا پختہ انتظام کرے تاکہ اگر حالات خراب بھی ہوں تو لوگوں کی جان و مال کا نقصان نہ ہوگا۔ امن پسند لوگوں کو بھی اپنی امن پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ انہوں نے اگر ایسا نہ کیا تو مٹھی بھر تشدد پسند عناصر اسی طرح حالات خراب کرتے رہیں گے جیسے وہ کرتے رہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS