یو گی سرکار اور یو پی پولیس کیا واقعی بدل رہی ہے

0

بی جے پی کی یو گی آدتیہ ناتھ سرکار کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، اس عرصہ میں سرکار کی کارکردگی کو لے کر بعض حلقوں میں سرکارکی بابت خوش گمانی ،اعتماد اور بھروسہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ خوش گمانی یہ بھروسہ یہ اعتماد وقتی ہے یا دیر پا یہ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس سے انکار نہیں کہ بی جے پی کا پوسٹر بوائے کا چہرہ رکھنے والے یو گی جی نے اپنی دوسری اننگ میں جس طرح کے اقدامات کئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ یو گی جی اب پوسٹر بوائے کی اپنی تصویر بدلنا چا ہتے ہیں ۔ ان کی طرف سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بر قرار رکھنے کیلئے ابھی تک 125 عبادت گاہوں سے جو لائوڈ اسپیکر ہٹائے گئے ہیںاور جس طرح 17ہزار لائوڈ اسپیکرس کی آواز کم کی گئی ہے اس میں کسی طرح کا کوئی امتیاز نہیں برتا گیا ہے۔مساجد سے اگر لائوڈ اسپیکر ہٹائے گئے تو دیگر دوسری عبادت گاہوں کے ساتھ مندروں پر لگے لائوڈ اسپیکر بھی ہٹائے گئے، اسی طرح آواز کم کر نے میں بھی سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں عبادتگا ہوں میں سرکار نے تیز آواز میں لائوڈاسپیکر کا استعمال کرنے والوں کی رپورٹ بھی طلب کی ہے اور آواز کم رکھنے کیلئے تقریباً 37ہزار 344 مذہبی پیشوائوں سے بات کی ہے ۔ اے ڈی جے لاء اینڈ آڈر پر شانت کمار کے مطابق یو پی کی 75ہزار عید گاہوں اور 20ہزار مساجد میں نمازِ عید ادا کی جائے گی جس کیلئے کہا گیا کہ یا تو آواز کم کرلی جائے اتنی کم کے احاطہ سے باہر نہ جا ئے یا پھر لائوڈ اسپیکر ہی ہٹا لیا جا ئے۔ آواز کم رکھی جائے اس سے کس کو انکا رہو سکتا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ آواز عبادتگاہ کے احاطہ سے باہر نہ جانے پائے ایسا کون سا پیما نہ ہے جس سے یہ طے مانا جا ئے کہ آواز احا طہ سے باہر نہیں جا رہی ہے اس پر بھی سرکار کو غور کرنا چا ہئے ۔سرکار کی طرف سے عید کے تہوار پر یوپی کے حسّاس اضلاع میں 45کمپنی پی اے سی اور 7کمپنی سی آر پی اور مقامی پولیس فورس کا بندو بست کیا گیا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ سرکار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو لیکر کافی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اس سے بھی ہو تا ہے کہ گزشتہ چند روز پہلے رام نگری ایو دھیا میں اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند اور سخت گیر7 ہندو نوجوانوں کو ڈھونڈ نکالا اور گرفتار کر لیا ہے، جنہوں نے اقلیتی فرقہ کے جذبات کو بھڑکانے اورمشتعل کرنے کی پوری کو شش کی اور کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ان کے 4ساتھی فرار بتا ئے گئے ہیںیہ سب کے سب ہندو یودھا نام کی غیر معروف سخت گیر ہندو تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا نیٹ ورک لکھنؤ سے سہارنپور تک پھیلا ہوا ہے۔ سہارنپور سے بھی اس تنظیم کے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں زیادہ تر پہلے سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ نے کے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ پولیس کی مانیں تو اس نے یو پی کو پھر سے آگ میں جھلسانے کی سازش کو بے نقاب کیاہے لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ یو گی سرکار نے ابھی تک بی جے پی کے ایم پی اور مسلمانوں کیخلاف آگ اگلنے والے ساکشی مہاراج کیخلاف کوئی کارروائی کیوںنہیں کی ہے جو جہادیوں ( مسلمانوں ) سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کی صلاح دے رہے ہیںکہنے کو تو اس کیلئے انہوں نے تیر کمان گھروں میں رکھنے کی بات کہی ہے لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ زمانہ تیر کمان کا نہیں تیر کمان کا نام لیکر انہوں اسلحہ رکھنے کی ترغیب ہندوئوں کی دی ہے ۔پی ٹی آئی کے حوالہ سے جو خبر آئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ساکشی مہاراج نے فیس بک پر جو پوسٹ ڈالی ہے اس میں لکھا ہے کہ آپ کے محلہ اور گلی میں اچانک بھیڑ آجا ئے تو اس سے بچنے کیلئے اگر آپ نے کوئی تدبیر نہیں ہے تو کر لیجئے پولیس بچا نے نہیں آئے گی۔اپنی اس پوسٹ میں ساکشی مہاراج نے جو فوٹو لگا ئی ہے اس میں ٹوپی پہنے ہاتھوں میں ڈنڈے لئے نوجوانوں کی بھیڑ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھیڑ کس کی ہوسکتی ہے ،یو پی پولیس نے ابھی تک ساکشی مہاراج کی اس حرکت کا کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا۔اگر اس طرح کی پوسٹ کوئی دوسرے مذہب کا شخص ڈال دیتا تو اب تک تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا اور اس کو ہو نا ہی چا ہئے تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ساکشی مہاراج کی رسّی کیوں ڈھیلی چھوڑی ہو ئی ہے کیا ان کی یہ تازہ پوسٹ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تارتار کرنے اور یو پی کا فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمیں امید کرنی چا ہئے کہ یوگی سرکار کی یو پی پولیس ساکشی مہاراج کے خلاف بھی کوئی کارروائی کرے گی ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایودھیا میں ہندو یو دھا نام کی انتہا پسند تنظیم کا جس طرح سے یو پی پو لیس نے پردہ چاک کیا ہے اور خوفناک چہرہ بے نقاب کیا ہے اس پر اپو زیشن جماعتیں بھی چپ ہیں اور میڈیا پر بھی سکتہ طاری ہے ۔ یو پی کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش سنگھ نے نہ تو کوئی بیان جاری کیا اور نہ ہی کوئی ٹویٹ لکھا ۔بی ایس پی کی بہن جی بھی خاموش رہیں اور کانگریس کی شیرنی بھی نہیں دہاڑی کہ جس تنظیم کا چہرہ بے نقاب کیا گیا ہے اس کے تار کس سے جُڑے ہیں۔ سرکار اس کو بھی بے نقاب کرے یہ مطالبہ تو اپوزیشن جماعتیں کر ہی سکتی تھیں۔پکڑے گئے انتہا پسند ہندو نوجوانوں کی خبر پرنٹ میڈیا میں کوئی خاص جگہ نہیں لے پائی کسی نے ایک کالم تو کسی نے دوکالمی خبر لکھ کر اپنی صحافتی ذمّہ داری پوری کرلی، برقی میڈیا پر بھی کسی کے چیخنے چلّا نے کی آواز سنائی نہیں دی اور نہ ہندو یودھا نام کی تنظیم کے ڈانڈے ملک سے باہر کسی تنظیم سے ملائے گئے، اگر اس طرح کی حرکت کرنے والے مسلمان ہو تے تو برقی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا اس کا حال یہ ہے کہ سہارنپور کی جامع مسجد کلاں میںالوداع جمعہ کی نماز پُر امن طور مکمل ہو نے والی نماز کے بعد نوجوان نمازیوں کو الٹے سیدھے سوال کر کے پہلے اکسا یا اور ان سے اللہ اکبر نعرے لگوائے اور اسکرین پر دکھا یا کہ مسلم نوجوان سڑک پر نماز نہ پڑھنے دینے پر بھڑک اٹھے ہیں اور ہنگامہ کررہے ہیں حالانکہ یہ خلافِ واقعہ بات تھی اسی لئے ایس ایس پی آکاش تومر نے ایسی ہر خبر پر ٹیگ کیا کہ یہ فیک نیوز ہے اس کے باجود بھی برقی میڈیا کو اتنی تو فیق نہیں ہوئی کہ اپنی غلطی تسلیم کرلیتا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔کہا جا رہا ہے کہ ایس ایس پی نے ان چینلوں کے کچھ نمائندوں کو لتاڑ پلا ئی ہے اور ان کیخلاف نوٹس بھی جا ری کئے گئے ہیں ۔
سچ بات یہ ہے کہ سرکار اور پولیس اگر چا ہے تو کہیں بھی ماحول خراب کر نے کی سماج دشمن عناصر ہمّت نہیں کرسکتے صرف پولیس سے ہم یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ پولیس ڈائری کے مطابق رول آف لاء پر چلے اس لئے کہ اس پر سیاسی آقائوں کا ڈنڈا رہتا ہے جو پولیس کے ڈنڈے سے زیادہ طاقتور ہو تا ہے ۔ پولیس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ ہماری پولیس خواہ کسی صوبہ کی ہو اس کی نگا ہیں حکمراں جماعت کے اشارئہ ابرو پر ٹکی رہتی ہیں کہ وہاں سے کیا اشارہ ملتا ہے، اسی اشارہ کے مطا بق ہماری پولیس کام کرتی ہے۔اس کی ایک مثال کا حوالہ معروف دانشور ایم جے ایم کی کتاب RIOT AFTER RIOT سے دیا جا تا ہے جس میں ایم جے اکبر نے فسادات کے دوران پولیس کی کار کردگی کا بھرپور جائزہ لیا ہے اس کتاب کے حوالہ سے کہا جا تا ہے کہ وی پی سنگھ جب یو پی کے وزیرِ اعلیٰ تھے تب مرادا باد کی عیدگاہ میں ایک خنزیر کے گھس آنے یا گھسائے جا نے کے بعد فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا اور عید گاہ میں نماز پڑھنے آئے مسلمان جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے سب کو پولیس نے گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ اس وقت مرادا باد پولیس کی ایک جیپ میں سوار پولیس والے دلت بستیوں میں یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ فلاں دلت بستی پر مسلمانوں نے حملہ کر دیا ہے تم بھی گھروں سے باہر آجائو ۔ایم جے اکبر نے اپنی کتاب میںاس واقعہ کو کس تناظر میں لکھا ہے یہ تو کتاب پڑھنے کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے لیکن اس سے ہماری پولیس کی ایک بھیانک تصویر سامنے آتی ہے، اب اگر ہماری یو پی پولیس اپنی اس تصویر کو بدل رہی ہے جیسا کہ ایودھیا اور سہارنپور کے واقعات سے سامنے آیا ہے توہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چا ہئے، یہ تبدیلی کسی بھی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے ،سب جانتے ہیںکہ ہماری پولیس ابھی بھی انگریزوں کے بنا ئے ہو ئے 1860 کے ضا بطہ کے تحت ہی کام کرتی ہے۔ پولیس کی اصلاح اور تربیت کو لے کر اور اس کے انسانی چہرہ کو لے کر ایک سے زائد ریفارم کمیشن بنا ئے جا چکے ہیں،جن کا کو ئی خاطر خواہ نتیجہ ابھی تک نہیں نکلا ہے ۔حال فی الحال کے جو واقعا ت سامنے آئے ہیں بلاشبہ وہ خوش آئند ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چا ہئے کہ جب تک سرکار نہیں چا ہے گی تب تک پولیس کچھ نہیں کر سکتی، اس لحاظ سے اگر دیکھا جا ئے ابھی ہماری پولیس ایک آزاد خود مختار اور رول آف لاء کے مطابق کام کرنے والے اور ایک آئینی حیثیت رکھنے والے ادارے کے باوجود آزاد نہیں ہے ۔ہمارے حکمراں جب تک پولیس کو اس کی خود مختاری نہیں دیں گے اور رول آف لاء کے مطابق کام نہیں کرنے دیں گے پولیس کی شبیہ بہتر نہیں ہو سکتی جو ایک مثالی اور بہتر سماج کیلئے ضروری ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS