ترکی صدر اردگان کے دورۂ سعودی کے معنی

0

گزشتہ دنوں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے دورۂ سعودی عرب کیا۔ اس موقع پر انھوں نے جہاں اپنے ساتھ آئے وفد کے ہمراہ عمرہ کیا اور خانہ کعبہ میں خصوصی دعائیں مانگی، وہیں انھوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے جدہ میں ’السلام پیلس‘ میں ملاقات کی جس میں ترکی- سعودی تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر باہمی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ترکی صدر اردگان نے مسلمانوں کے مقدس ماہ رمضان کے اختتام کو اس دورے کیلئے موزوں وقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ برادرانہ تعلقات کو دوبارہ سے بہتر کرنے اور مضبوط کرنے کا مہینہ ہے۔‘یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل ترکی صدر طیب اردگان نے پانچ برس پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ حالیہ دورہ کے دوران اردگان محمد بن سلمان سے معانقہ اور سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ روایتی قہوہ پیتے ہوئے خوش گوار ماحول میں گفتگو کرتے نظر آئے ہیں۔اس عرصے میں ایسی کیا تبدیلیاں آئیں جو ان دو بڑے مسلم ممالک کو دوبارہ قریب لا رہی ہیں؟ یہاں انہی اسباب کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ادھر سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے تازہ ترین علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفت اور ان کیلئے کی جانے والی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ادھر ماہرین کی جانب سے اردگان کے اس دورے کو بہت خاص اور غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں سعودی عرب کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے بعد صدر اردگان کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہے۔
دراصل کورونا وبا اور اب روس یوکرین جنگ کے پیش نظر مختلف مملکتوں کی معیشتوں کو کاری ضرب لگی ہے اور خود بڑی قوتیں سمجھنے والے ممالک کی معیشت بھی اس وقت جس تنزلی کا شکار ہیں اس کی مثال مل پانا مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ماہرین کا خیال ہے کہ اردگان کے دو روزہ دورے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ ترکی کی معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ادھر اس ضمن میں انقرہ کے مواصلاتی دفتر نے ٹوئٹر پر کہا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر اردگان کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات بھی کی۔ جبکہ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے کہا کہ ’دونوں رہنماؤں نے سعودی عرب اور ترکی کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا اور انھیں بہتر بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔‘انقرہ کو امید ہے کہ یہ دورہ ترکی کی درآمدات کے غیر سرکاری سعودی بائیکاٹ کے مکمل خاتمے کا سبب بنے گا جو 2020 میں خاشقجی کے قتل کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے سعودی مملکت میں ترکی کی درآمدات میں 98 فیصد کمی ہو گئی تھی۔
دریں اثنا صدر اردگان کے دفتر نے کہا کہ اْن کا یہ دورہ سعودی بادشاہ کی دعوت پر کیا گیا ہے، جو تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مہینوں کی طویل کوششوں کے نتیجے کی نشاندہی کرتا ہے جس میں 2018 میں ترکی کی جانب سے استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے کی سماعت کو ختم کرنا بھی شامل تھا۔یہاں قابل ذکر ہے کہ ترکی میں اگلے سال صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور اس وقت ترکی کے عوام کو مہنگائی کے چلتے مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق افراطِ زر 61 فیصد ہوچکا ہے جبکہ گزشتہ برس ڈالر کے مقابلے میں ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں 44 فیصد کمی آچکی ہے۔ اس معاشی صورتِ حال کی وجہ سے اردگان کے لیے مشکلات پیدا ہورہی ہیں اور اقتدار پر ان کی گرفت بھی کمزور ہورہی ہے جبکہ ترکی میں آئندہ سال انتخابات ہونے والے ہیں۔دوسری جانب سعودی عرب کے لیے رواں سال معاشی طور پر سازگار ثابت ہورہا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بڑا اضافہ متوقع ہے۔توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سعودی عرب کی آمدنی 400 ارب ڈالر سے زائد ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سعودی عرب کے پاس اس وقت ترکی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے پناہ سرمایہ ہے۔موجودہ حالات کے پس منظر میں ترکی کے لیے اپنے معاشی بحران سے نمٹنے میں سعودی عرب سے تعلقات کی بہتری انتہائی اہمیت اختیار کرچکی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین اردگان کے اس سعودی دورے کو ترکی کے اگلے سال ہونے والے انتخابات کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ ادھر مختلف تجزیہ کاروں اور حکام کی نظر میں سعودی فنڈنگ ترکی کو اپنی اقتصادی پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے، جس میں افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح بھی شامل ہے۔ ترکی کے معاشی حالات کی بہتری سے صدر اردوغان کو اگلے سال انتخابات میں فائدہ ہو سکتا ہے۔ادھر ترکی صدر اردگان نے اس ملاقات کے بارے میں ٹویٹ کیا ہے کہ ’ہم نے تمام مواقع پر کہا ہے کہ ہم خلیجی خطے میں اپنے دوستوں کے استحکام اور سلامتی کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی ہم اپنے استحکام اور سلامتی کو دیتے ہیں۔‘اس سے پہلے سعودی عرب روانگی سے قبل اردگان نے اتاترک ہوائی اڈے پر میڈیا کو بتایا کہ ان کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ’نئے دور‘ کا آغاز ہو گا۔
جبکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، جدہ روانگی سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اردگان نے کہا کہ ان کا سعودی عرب کا دورہ تعلقات کو بہتر بنانے اور سیاسی، عسکری اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ’ہماری مشترکہ مرضی کا مظہر‘ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صحت، توانائی، فوڈ سیکورٹی، دفاعی صنعت اور مالیات سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا باہمی طور پر فائدہ مند ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ ہم مشترکہ کوششوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس سے آگے لے جائیں گے جہاں وہ ماضی میں تھے۔‘مذکورہ دورے کے حوالے سے ترکی کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ ’سفر سے پہلے دونوں جانب بہت ہی مثبت ماحول تھا، اور زمین ہموار ہے تاکہ ہم ایک بار پھر تجارت، سرمایہ کاری اور علاقائی مسائل پر متحد ہو کر کام کر سکیں۔‘صدر اردگان نے سعودی عرب پر ڈرون اور میزائل حملوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ ’خلیج میں دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں۔‘ سعودی عرب ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کرتا رہا ہے۔دراصل صدر اردوگان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترکی بحیرہ اسود کے اپنے پڑوسی ممالک یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے منفی معاشی نتائج سے دوچار ہے۔ ترکی کی معیشت برسوں سے بیمار رہی ہے اور 2021 کے آخر میں اردگان کی حمایت یافتہ غیر روایتی مانیٹری پالیسی کی وجہ سے ترک کرنسی لیرا کا بحران شروع ہوا جس کی وجہ سے افراط زر کی شرح 60 فیصد سے زیادہ بڑھ گئی۔ترکی کی یہ خواہش ہے کہ سعودی عرب موجودہ ’کرنسی سواپ نیٹ ورک‘ میں شامل ہو جس کی مالیت 28 ارب ڈالر ہے جس میں پہلے ہی چین، جنوبی کوریا، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہو چکے ہیں۔ اس ضمن میں حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کی کوشش ہے کہ ابوظہبی کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی طرح کی سعودی عرب سے بھی معاہدے ہو جائیں۔ اردگان کا یہ دورہ مصر، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات سمیت پورے خطے میں ترکی کے کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے ایک وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ادھر رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں مختلف سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں شام، لیبیا اور دیگر جگہوں پر ترکی کی پالیسیوں کی وجہ سے ترکی کے تیزی سے الگ تھلگ ہونے کے بعد اقتصادی اور سیاسی دباؤ کو دور کرنے میں اْسے مدد کی ضرورت ہے۔
ایک دیگر مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’اردگان عملیت پسند سیاسی ذہن رکھتے ہیں اور جب تک وہ ملک میں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ نہیں کرتے ہیں ایک برس میں انتخابات ہونا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔ لہٰذا وہ جزوی طور پر سعودی عرب میں سودے اور فنڈنگ کی تلاش میں ہیںاور شاید 10 سے 12 ارب ڈالر سے انھیں کچھ فائدہ ہو گا۔‘جبکہ ادھر واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک اسکالر بیرول باسکان کے مطابق ‘ترکی جس پالیسی پر عالمِ عرب میں موسمِ بہار والے انقلاب کے آغاز سے عمل کر رہا ہے وہ مزید جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ وہ اپنی جارحانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے الگ تھلگ رہ گیا تھا۔‘حالیہ برسوں میں ترکی نے قطر اور صومالیہ میں فوجی اڈے بنائے ہیں۔ شام، لیبیا اور نگورنا کاراباخ پر اس کے موقف اور روس سے دفاعی نظام خریدنے کے منصوبے نے مغربی ممالک اور ناٹو اتحادیوں کے ساتھ تناؤ بڑھا دیا ہے۔جبکہ مڈل ایسٹ پالیسی کونسل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 سے ترکی خلیجی ممالک کے حوالے سے یو ٹرن لے رہا ہے اور ان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مہم کے تحت اردگان مصر، متحدہ عرب امارات، اسرائیل اور سعودی عرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور اختلافات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ امور کے ماہر سیموئیل رامانی کا کہنا ہے کہ ‘ترکی کی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ اس کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری اور کاروباری مواقع کی تلاش ہے۔ اس کے روس جیسی دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ امریکہ، یورپ اور چین کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں اور وہ اسے بہتر کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی سرمایہ کاری سے ترکی کی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اردوغان کا راستہ قدرے آسان ہو سکتا ہے۔ صدر اردگان کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافے کا اشارہ ترکی کے وزیر خارجہ نورالدین نباتی کے ایک ٹویٹ میں بھی ملتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے 2022 کی پہلی سہ ماہی میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بی بی سی ترکی سروس کا کہنا ہے کہ ترکی نے 2022 کے پہلے دو مہینوں میں سعودی عرب سے 69.3 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں، ترکی کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق، لیکن اس کی برآمدات 2 کروڑ ڈالر کی سطح پر رہیں۔اس وقت بے شک ترکی اورایران براہ راست ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں لیکن شام اور عراق میں ان کے درمیان مسابقت پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اور ان کے درمیان اقتصادی تعلقات بھی ہیں۔ ترکی اگر اپنا وزن خلیجی ممالک کے پلڑے میں ڈال دے گا تو اس سے ایران کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی اس نئی پیش رفت کے نتیجے میں توقع کی جارہی ہے کہ لیبیا میں بھی کشیدگی کم ہوگی کیوں کہ وہاں ترکی اور عرب امارات مدمقابل گروپس کی مدد کررہے تھے۔ اس لیے ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لیبیا میں صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس وقت خلیجی ممالک کی عملیت پسندانہ خارجہ پالیسی سے ترکی کو بھی فائدہ ہوگا اور اپنے مغربی اتحادیوں سے دوری کے باعث بڑھنے والی اس کی عالمی تنہائی میں بھی کمی آئے گی، لیکن اردگان اور محمد بن سلمان کی قربت کے باجود اس تعلق میں کہیں نہ کہیں عدمِ اعتماد بھی برقرار رہے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS