شکست و ریخت کی کہانی کیا کہتی ہے؟ : عبدالماجد نظامی

0
شکست و ریخت کی کہانی کیا کہتی ہے؟ : عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

ہمارے ملک عزیز میں جن کو واقعات، مسائل، حالات اور بدلتے ادوار کی تاریخ لکھنے کا شوق ہو، ان کے لیے اچھے یا برے مناظر کی تصویرکشی کرنے کے شاندار مواقع موجود ہیں۔ یہ ملک اپنی جغرافیائی وسعتوں، تہذیبی تنوعات، فرقہ وارانہ مسائل اور سیاسی و مذہبی کشمکش کے علاوہ بیشمار دیگر پہلوؤں کے لیے دنیا کی ممتاز جگہوں میں سے ایک ہے۔ ایک واقعہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسری کہانی جنم لے لیتی ہے۔ کئی بار تو اتنے اہم مسائل ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ترجیحات کی فہرست میں کس کو جگہ دی جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے۔ اب امسال اسی دسمبر کے مہینہ کو لے لیجیے کہ اس میں لکھنے کے لیے ایک قلمکار کے پاس کتنے موضوعات جمع ہوگئے ہیں۔ ایک طرف رائٹ ونگ ہندوتو کی سیاست کو کئی ریاستی انتخابات میں شاندار کامیابی ملی ہے اور اس کے اپنے دوررس اثرات ملک اور سماج پر مرتب ہوں گے تو دوسری طرف6دسمبر کا وہ سیاہ دن بھی اسی مہینہ میں آتا ہے جب صدیوں سے قائم قدیم تاریخی بابری مسجد کو اسی ہندوتو کی سیاست کرنے والے دماغوں نے فساد کی جڑ بناکر ملک کے عوام کو اس حد تک تقسیم کر دیا کہ یہاں کی اکثریت میں اقلیت کے تئیں شدید نفرت پیدا ہوگئی اور ان کا قتل کیا جانا بھی جائز عمل قرار پا گیا۔6دسمبر کا یہ دن ملک کی مسلم اقلیت کے لیے ایسا زخم بن کر رہ گیا ہے جس کی ٹیس ان کے جسم و جان سے کبھی ختم نہیں ہوگی۔ نفرت کی اس سیاست کی بنیاد ہندوتو کے نظر یہ سازوں نے بہت پہلے رکھ دی تھی لیکن لال کرشن اڈوانی اور ان کے رفقاء عہد جدید کے ان سیاست دانوں میں ہیں جنہوں نے نفرت کو عملی جامہ پہنایا اور اقلیت کے قتل و خوف کو اپنی سیاسی منزل تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا اور ہمیشہ کے لیے اس ملک عزیز کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکل پانا اب تقریباً ناممکن ہے۔انہیں اگر ہندوتو کی نشاۃ ثانیہ کا محرک کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔یہ لال کرشن ہی تھے جنہوں نے ہندوتو کی سیاست کے لیے ایک دوسری کھیپ تیار کی جس نے مکمل طور پر تقسیم کی سیاست کو ایک نئی بلندی عطا کر دی۔ گجرات کی ریاست جو کبھی اقتصادی ترقی اور امن پسندی کے لیے مشہور تھی اور جہاں ہندو-مسلم ہم آہنگی ایک حقیقت بن چکی تھی، اس کو جب نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتو کا ماڈل بننے کا امتیاز حاصل ہوا تو اس کی بنیاد بھی وہی سیاست بنی جس میں نفرت و تقسیم کو امتیازی مقام حاصل تھا۔ اس صدی کے بالکل آغاز میں گجرات میں جو ماڈل تیار کیا گیا، محض ایک دہائی کے کچھ ہی بعد ملکی سطح پر اسی ماڈل کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا اور تب سے ہی اس ملک کی جہت، اس کا کردار اور اس کی امیج ہر طرح سے بدل گئی۔ ہندوتو کی اس سیاست میں ان لبرل جمہوری قدروں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی جن کی بنیاد پر اس ملک کے اولین رہنماؤں نے اس کے مستقبل کو سنوارنے کا خواب دیکھا تھا اور اپنی زندگی میں ان کو نافذ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے دستور ہند کی شکل میں وہ رہنما اصول تیار کیے جو کثرت میں وحدت کی علامت سمجھے گئے۔ لیکن یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ صرف ہندوتو کو مورد الزام ٹھہرانا مسئلہ کا حل نہیں ہے، آج یہ ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے، اس کے لیے وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں جن سے اس ملک کے عوام کو توقع تھی کہ وہ ان اعلیٰ انسانی اور سماجی اصولوں کی روشنی میں اس ملک کو چلائیں گے جن کی وکالت آزادی کے بعد کے اولین رہنماؤں نے کی تھی۔ سچائی یہ بھی ہے کہ نہرو اور گاندھی کے جاں نشینوں نے پوری ایمان داری اور خود اعتمادی کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا جو ان کے کاندھوں پر ڈالی گئی تھیں۔ ملک کے سیکولرازم، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بقائے باہم کے اصولوں پر ہندوتو کے حملے مسلسل ان دنوں اور سالوں میں ہوتے رہے جب نہرو کے سیاسی وارثین اس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک تھے لیکن انہوں نے نہ ان حملوں کے سدباب میں دلچسپی دکھائی بلکہ خود نرم ہندوتو کا چولا پہن کر نفرت کے میدان میں رقص کرنے نکل پڑے۔ آج بھی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جو شکست کانگریس پارٹی کو ملی ہے، ان کے تجزیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ جن قارئین نے ان ریاستوں میں جاری پالیسیوں کو قریب سے دیکھا ہوگا کہ کمل ناتھ سے لے کر گہلوت تک ہر کانگریسی رہنما نرم ہندوتو کے لیے اتنا سرگرم نظر آ رہا تھا کہ یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہ وہی پارٹی ہے جس نے نہرو اور گاندھی کے اصولوں پر مبنی پارٹی کو آگے لے جانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ کانگریس پارٹی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس ملک کے عوام کو آج بھی ایسے قائدین کی ضرورت ہے جو انہیں صحیح سمت میں لے جاسکیں اور انہیں نفرت و تقسیم کی سیاست کے بجائے سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ پر ڈال سکیں۔ انہیں پوری قوت کے ساتھ اس سیکولر سیاست کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا جس کی بدولت اس ملک کو ایک دھاگہ میں پرونا ممکن ہے۔ انہیں نرم ہندوتو کا سہارا لے کر بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر میں اپنا کردار درج کروانے کے بجائے اتنی اخلاقی جرأت دکھانی ہوگی اور یہ سچ عوام کو بار بار بتانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق بھی یہ پایا گیا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر کبھی نہیں کی گئی تھی۔ اس ملک کے جذباتی لیکن آپسی محبت کے عادی عوام کو اس حقیقت سے بھی روشناس کرانا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت میں جو لوگ شامل تھے، وہ مجرم قرار پائے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہندوتو کی سیاست کے زور کی وجہ سے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجا گیا۔ اگر پوری قوت اور ایمان داری کے ساتھ سچ کا ساتھ دیا جائے اور ملک کے ہر طبقہ کے حقوق کی حفاظت دستوری اصولوں کی روشنی میں کی جائے تو نفرت کی سیاست کے دن جلد ہی لَد جائیں گے۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست کے لیے اس ملک کے لوگ تیار نہیں ہیں جس کا اندازہ حالیہ انتخابات میں کانگریس پارٹی کو ملنے والے ووٹ کی شرح سے بھی ہوتا ہے۔2014میں بھی ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگوں نے ہندوتو کی سیاست کو مسترد کر دیا تھا۔ راہل گاندھی نے جب ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی تھی، اس وقت بھی ان کا یہی تجربہ تھا تو آخر الگ الگ ریاستوں میں کانگریس کی قیادت کو یہ چھوٹ کیوں دے دی جاتی ہے کہ وہ نہرو و گاندھی کے اصولوں سے انحراف کرجائیں؟ انہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ گاندھی جی نے اپنی جان کی قربانی اس لیے نہیں دی تھی کہ اس ملک کو بانٹنے والی طاقتیں ایک دن اس ملک کی روح کو اذیت پہنچائیں اور یہاں کے بسنے والوں کو تنگ دائروں میں تقسیم کرکے اپنا سیاسی فائدہ اٹھائیں۔2024کے عام انتخابات میں اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس ملک کی سیکولر طاقتوں کو متحد ہوکر اپنا کام کرنا ہوگا اور نرم ہندوتو کے بجائے گاندھی کے اصولوں پر گامزن ہونا پڑے گا، ورنہ اگلے سال بھی حالیہ اسمبلی انتخابات کے تلخ نتائج سے چھٹکارا پانا آسان نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS