یوپی الیکشن کے نتائج کیا اشارے کرتے ہیں؟

0

عبدالماجد نظامی
پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں اور کئی طرح کے جذبات کی عکاسی ہو رہی ہے۔ ان پانچ ریاستوں میں سے اترپردیش کا الیکشن اس لیے سب سے اہم مانا جا رہا تھا، کیونکہ یہاں ہندوتو کی سیاست اپنے عروج پر تھی۔ گرچہ اترپردیش سمیت اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو توقعات سے زیادہ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں، البتہ ایک سیکولر ذہن کے ہندوستانی شہری کو سب سے زیادہ مایوسی اترپردیش کے نتیجہ سے ہوئی ہے، کیونکہ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کا اثر قومی اور ملکی سطح پر پڑنا لازمی ہے۔ جو سیاسی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ یوپی کے الیکشن کے نتائج2024کے عام انتخابات کا موڈ طے کریں گے، انہیں اب غالباً یقین ہوگیا ہوگا کہ ہندوستانی جمہوریت کے سامنے چیلنجوں کا کیسا اونچا پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے۔ یہ واقعی قابل غور بات ہے کہ آخر یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار جس کے خلاف غم و غصہ کی لہر بہت تیز تھی اور جس نے امن و امان کے مسئلہ سے لے کر روزگار اور تعلیم و صحت تک ہر محاذ پر ناکامی کا مظاہرہ کیا تھا، وہ بھلا واضح اکثریت کے ساتھ جیت حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوگئی۔ آئندہ دنوں اور ہفتوں میں جب اس الیکشن کے مختلف پہلوؤں پر ماہر سیاسی تجزیہ نگار اپنی آراء پیش کریں گے تب مزید وضاحت کے ساتھ اترپردیش کی سیاست کے تانے بانے کو سمجھنے میں مدد ملے گی لیکن سر دست یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوتو نے سماجی تقسیم پر مبنی جس سیاست کا آغاز کیا تھا، وہ آج اپنی بلندی پر پہنچ چکی ہے اور اپوزیشن پارٹیاں صرف مغربی بنگال کے استثناء کے علاوہ2014سے اب تک اس کا موثر علاج ڈھونڈ نہیں پائی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے سامنے چیلنجز کا ایک طوفان کھڑا ہونے والا ہے جن کے تحت شاید انہیں اپنے لیڈروں کو باہم مربوط رکھنے میں دشواری پیدا ہوگی۔ اس کا بھی امکان ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن پارٹی کے وہ لیڈران جو الیکشن سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اپنے اتحاد کو خیرباد کہہ آئے تھے وہ دوبارہ ان کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی دوڑ میں شامل ہوجائیں جیسا کہ مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہوا تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں کو اب سبق لینے کی ضرورت ہوگی کہ وہ صرف پاور کو حاصل کرنے کی غرض سے مختصر مدت کو دھیان میں رکھ کر اپنی پالیسیاں اور سیاسی سمت طے نہ کریں بلکہ ایک طویل مدتی پروگرام طے کرنے میں اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ انہیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ ہندو نیشنلزم کا مقابلہ ایک کمزور ہندو نیشنلزم ہی سے نہیں کیا جاسکتا ہے، ہندوستانی عوام کا مزاج آج بھی محبت و رواداری اور بقاء باہم کے ماحول کو پروان چڑھانے والے نظریات کی حمایت کا ہے، البتہ 2014 میں نریندر مودی کی جیت کے بعد سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے سیکولر قدروں سے جس طرح اپنا پلہ جھاڑا ہے اور ہندوتو کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے نرم درجہ کی ہندوتو والی سیاست پر تکیہ کر لیا ہے، اس کی وجہ سے عوام میں سیکولر پارٹیوں کے تئیں ایک قسم کی بیزاری کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ مغربی بنگال کے الیکشن نے یہ ثابت کیا تھا کہ اگر ہندوتو کے مقابلہ میں ایک مضبوط قوت ارادی کی حامل سیاسی پارٹی موجود ہو جو سیکولر قدروں کے تحفظ کے لیے دلجمعی کے ساتھ مقابلہ کرنے میں یقین رکھتی ہو اور ایسی تعبیر استعمال کرنے پر قادر ہو جو عوام کے افکار و آراء کو اعلیٰ سیکولر سیاسی قدروں کی طرف موڑ سکے تو پھر وہ کبھی بھی ان طاقتوں کو اپنا سیاسی نمائندہ منتخب نہیں کرتے ہیں جو ملک کی تکثیریت اور بقاء باہم کی طویل ہندوستانی تاریخ کو مسخ کرنے کے درپے ہوتی ہیں۔ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی نے ہندوتو کی پالیٹکس کا مقابلہ کرنے کی اچھی کوشش کی تھی جس کا مثبت نتیجہ بھی اسے دیکھنے کو ملا کہ وہ اپنا وہ مقام اور ووٹ شیئر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جو اس کو نوے کی دہائی میں حاصل تھا۔ البتہ ہندوتو کی سیاست کو منتشر اپوزیشن کا زبردست فائدہ پہنچا ہے۔ خاص طور سے بہوجن سماج پارٹی کا کردار بہت مشکوک اور قابل ترس رہا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی نے ہندوتو کی سیاست کو شکست دینے کے بجائے ان کے ساتھ فکر یکجہتی کا خاموش اظہار کیا اور اسی لیے مایاوتی اور امت شاہ ایک دوسرے کی تعریف کرتے نظر آئے۔ اس کے برعکس کانگریس پارٹی ہمیشہ کی طرح نرم ہندوتو کی سیاست میں ملوث نظر آئی۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ کانگریس پارٹی اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی طرح کیڈربیسڈ پارٹی نہیں ہے اور اسی لیے اس سے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی تھی کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے چیلنج بن پائے گی لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ اونچی ذات کے وہ ہندو جو کبھی کانگریس پارٹی کو قوت فراہم کیا کرتے تھے اب دور جا چکے ہیں اور راہل گاندھی کی طرح پرینکا گاندھی بھی اپنا جادو چلانے میں ناکام رہی ہیں۔ ایک قدیم نیشنل پارٹی کا لگاتار اور بار بار ناکام ہونا اور صحیح سیاسی تعبیرات سے محروم ہوکر عوام کی نظروں میں ناقابل اعتنا ہوجانا ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کے لیے سخت آزمائش کی بات ہے۔ ان تمام اپوزیشن پارٹیوں کو آپسی انتشار کے اس ماحول کو ختم کرنا ہوگا جس کی وجہ سے سماج کو تقسیم کرنے والے نظریہ کو پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اترپردیش کے مسلمانوں کے لیے آئندہ پانچ برس مزید مسائل سے پر ہونے کا اندیشہ ہے لیکن انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں بس یہ ہنر سیکھنا ہوگا کہ چیلنجز سے ہر ماحول میں اپنا وقار برقرار رکھتے ہوئے مستقبل کا لائحۂ عمل کیسے تیار کریں۔ انہیں اپنی ترجیحات ٹھیک سے طے کرنی ہوںگی اور تعلیم و صحت اور تجارت کے ساتھ ساتھ آپسی ناچاقیوں کے ماحول کو ختم کرکے ایک متحد سماج کا نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ انہیں ابھی سے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا کہ مسائل کا سیلاب آئے گا اور ہندوتو کی سیاست کے سب سے منفی اثرات ان پر ہی پڑیں گے۔ البتہ انہیں اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کی سیاسی سوجھ بوجھ ابھی بھی اس حد تک مضبوط نہیں ہوئی ہے کہ وہ اپنے بھلے برے کا فیصلہ غیر جذباتی ہوکر کر سکیں۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست کوئی خیرات نہیں ہے جس کو ہر اس شخص کی جھولی میں ڈال دیں جو ان کے دروازہ پر دست دراز کرنے آ جائے۔ سیاست ایک سنجیدہ عمل ہے جس کو حکمت عملی کے اصولوں پر سمجھا اور نافذ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے اس الزام کو قبول کرلیں کہ مسلمانوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا اور مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم نے ہمیں نقصان پہنچایا۔ فی الحال سیکولر پارٹیوں اور اقلیتی طبقوں کے لیے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا بے دردی سے جائزہ لیں اور مستقبل میں ان غلطیوں کو نہ دہرانے کی عملی تدابیر کریں تاکہ ہندوستان کی جمہوریت کو بچایا جاسکے اور دستوری قدروں کے تحفظ کا سامان بہم پہنچایا جاسکے۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS