آخر کیا کہتے ہیں ضمنی انتخابات کے نتائج

0

عباس دھالیوال

گزشتہ دنوں ملک کی 13 ریاستوں میں 3 پارلیمانی اور 29 اسمبلی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو سیاسی پنڈتوں کی طرف سے 2022 کے ابتدائی مہینوں میں ہونے والے پانچ اسمبلی انتخابات سے قبل ایک طرح سے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ نتائج سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو شدید دھچکا لگا ہے۔ بی جے پی کو صرف 8 اسمبلی حلقوں میں ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف کانگریس اور علاقائی جماعتوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان ضمنی الیکشن کے نتائج کا جائزہ لیں تو مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش اور مرکز کے زیر انتظام دادرہ و نگر حویلی میں ایک ایک پارلیمانی حلقے میں انتخابات ہوئے تھے جن میں سے مدھیہ پردیش میں کھنڈوا سیٹ بی جے پی نے، ہماچل کی منڈی سیٹ کانگریس نے اور دادرہ و نگر حویلی کی سیٹ شیو سینا نے جیتی ہے۔ منڈی سیٹ بی جے پی کی تھی مگر اسے کانگریس نے چھین لیا ہے۔ اس کے علاوہ آسام کی 5، مغربی بنگال کی 4، مدھیہ پردیش، میگھالیہ اور ہماچل پردیش کی 3-3، راجستھان، بہار اور کرناٹک کی 2-2 اور آندھرا پردیش، مہاراشٹر، ہریانہ، میزورم اور تلنگانہ کی ایک ایک اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں مغربی بنگال میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے تمام چاروں نشستوں پر اور کانگریس نے ہماچل پردیش کی تمام تینوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ہماچل پردیش میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے، وہاں دونوں سیٹوں پر اسے کامیابی ملی ہے جبکہ اس سے قبل ایک سیٹ پر بی جے پی کا قبضہ تھا۔ اگر بات مغربی بنگال کی کریں تو یہاں بی جے پی کے 4 میں سے 3 امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں۔ سیاسی ماہرین کی مانیں تو بی جے پی کے لیے یہ کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں ہے،کیونکہ ابھی حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں وہ دوسرے نمبر پر رہی تھی۔
ادھر کرناٹک میں بی جے پی کو دو میں سے ایک نشست پر کامیابی ملی جبکہ پنجاب کے ساتھ لگنے والے ہریانہ کے، جہاں زرعی اصلاح کے تینوں قوانین کی بے تحاشا مخالفت ہو رہی ہے، ایلن آباد اسمبلی حلقے میں ہوئے الیکشن کو بھی دلچسپی سے دیکھا جا رہا تھا۔ اس حلقے میں بی جے پی اور جے جے پی کے مشترکہ امیدوار گوبند کانڈا کو شکست ہوئی ہے اور انڈین نیشنل لوک دل کے ابھے چوٹالہ کو کامیابی ملی ہے۔ ابھے چوٹالہ نے متنازع زرعی قوانین کے خلاف کچھ مہینوں قبل بطور احتجاج اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت ہریانہ میں بی جے پی اور جے جے پی کی اتحادی حکومت ہے۔ کسانوں نے یہاں بی جے پی اور جے جے پی امیدوار کے خلاف الگ سے انتخابی مہم چلا رکھی تھی۔ غالباً اسی لیے اس نتیجے کو زرعی قوانین پر ریفرنڈم سمجھا جا رہا ہے۔ بات اگر آسام کی کریں تو وہاں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی ہے، تمام پانچوں نشستوں پر اس کے امیدوار فاتح رہے ہیں۔ تلنگانہ میں بی جے پی نے حضور آباد اسمبلی سیٹ حکمراں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی سے چھین لی ہے۔ ادھر ان انتخابات میں بی جے پی ہار کے حوالے سے ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جے رام ٹھاکر کا کہناہے کہ ’انتخابات میں مہنگائی ایک ایشو تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو شکست ہوئی۔‘جبکہ دوسری طرف کچھ بی جے پی رہنما اس شکست کو ریاست میں پارٹی کے اندر چل رہے اختلافات کا شاخسانہ قرار دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
انتخابی نتائج پر سینئر تجزیہ کار ہرتوش سنگھ نے ایک نیوز رپورٹ میں کہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں عام طور پر اسی پارٹی کی جیت ہوتی ہے جو برسر اقتدار ہو۔ اقتدار میں آنے کے بعد کم از کم دو سال تک ایسے ہی نتیجے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کو کامیابی ملی ہے اور بی جے پی کو بڑی شکست ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں ہریانہ میں کسانوں کے احتجاج کا اثر پڑا ہے۔ ممکن ہے کہ آگے جو الیکشن ہوں، ان پر بھی اور خاص طور پر ہریانہ، پنجاب اور مغربی یو پی میں کسان تحریک کا اثر پڑے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا اثر پورے ملک پر پڑنے کا امکان کم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی انتخابات میں مقامی ایشوز پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ ہر ریاست کے الگ الگ ایشوز ہوتے ہیں۔ ہماچل پردیش میں مہنگائی کی وجہ سے بی جے پی ہاری ہے، البتہ دوسری ریاستوں میں بھی مہنگائی ہے لیکن کئی جگہوں پر اسے کامیابی بھی ملی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان انتخابی نتائج سے قومی سطح پر کسی بڑی تبدیلی کے آنے کی بات نہیں کہی جا سکتی، البتہ اقتصادی ایشوز کا اثر انتخابات پر پڑتا ہے اور آگے بھی پڑے گا۔ ممکن ہے کہ اگلے سال جو انتخابات ہوں، ان پر بھی پڑے لیکن یو پی وغیرہ کے سلسلے میں یقین کے ساتھ ابھی کوئی بات نہیں کہی جا سکتی جبکہ تجزیہ کار ویریندر سینگر ہر توش سنگھ سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی، کسان تحریک، خواتین کے خلاف جرائم اور حکومت کا من مانے انداز میں کام کرنا، یہ وہ ایشوز ہیں جن کا آنے والے انتخابات پر اثر پڑے گا۔ ان کے مطابق، بی جے پی کو آنے والے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے عوامی مسائل پر توجہ دینی ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کسانوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہے تو اس سے اسے فائدہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی وہ بی جے پی کے مذہبی اور جذباتی ایشوز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پارٹی کو جب اپنی شکست کا احساس ہوتا ہے تو وہ مذہبی کارڈ کھیلنا شروع کر دیتی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگلے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ مذہبی کارڈ کھیلے گی۔
کسان تحریک چلانے والے ’سنیکت کسان مورچہ‘ کے ترجمان جگموہن سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ جب تک حکومت زرعی قوانین واپس نہیں لے گی، بی جے پی کو شکست ہوتی رہے گی۔ ہریانہ کے نتیجے سے ہمیں حوصلہ ملا ہے اور ہم اسی طرح اترپردیش اور پنجاب کے الیکشن میں بی جے پی امیدواروں کے خلاف مہم چلائیں گے۔ بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت کا کہنا ہے کہ ہماچل پردیش اور ہریانہ میں بی جے پی کی شکست کسان تحریک کی فتح ہے۔ ٹکیت نے ہریانہ کے نتیجے کے حوالے سے کہا ہے کہ عوام نے بی جے پی-جے جے پی امیدوار کو ہرا کر کسانوں کی تحریک کو اپنی حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ کل ملا کر ان ضمنی انتخابات کی ہار جیت کا مرکزی حکومت پر زیادہ اثر نہیں ہونے والا لیکن دیوالی کے موقع پر مرکزی حکومت نے جس طرح پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس میں تخفیف کی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ مہنگائی پر لوگوں کی ناراضگی کا احساس اسے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کے ٹیکس میں کمی کر کے مرکزی حکومت نے لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ عوام کی تکلیف کو سمجھتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS