گروگرام میں نماز کی جگہ پر تنازع

0

پانچوں وقت کی نماز کے لیے عام طور پر مسجد میں ہی جگہ کافی ہوتی ہے، البتہ رمضان میں پنچ گانہ نماز میں نمازیوں کی تعداد زیادہ رہتی ہے، اس لیے زیادہ بڑی جگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح نماز جمعہ میں بھی نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، اس لیے زیادہ جگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ نمازیوں کو سڑکوں ، پارکوں یا ایسی ہی کسی کھلی جگہ پر نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔ کئی جگہوں کو اظہار یکجہتی کے طور پر غیر مسلم صاف کرتے یا کراتے ہیں، مسلمانوں کا سڑکوں اور پارکوں میں نماز جمعہ ادا کرنا ان کے لیے کبھی باعث پریشانی نہیں بنا۔ گڑگاؤں میں بھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا جاتا تھا کہ مسلمان اِس جگہ یا اُس جگہ نماز نہ پڑھیں مگر اب ایسا لگتا ہے کہ گڑگاؤں کا نام ہی تبدیل نہیں ہوا، وہاں کے حالات بھی بدل گئے ہیں۔ اسی لیے گروگرام میں کئی ایسی جگہیں متنازع بن گئی ہیں جہاں مسلمان نماز ادا کرتے آئے ہیں۔ شروع میں انتظامیہ کے رخ سے ایسا لگتا تھا کہ وہ عوامی مقامات پر مسلمانوں کے نماز ادا کرنے کی مجبوری سمجھ رہی ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ کسی دباؤ میں ہے، کیونکہ گروگرام میں جن 37 مقامات پر نماز ادا کی جاتی ہے، پہلے ان میں سے 8 پر نماز ادا کرنے کی اجازت واپس لی گئی اور اب ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر دیگر مقامات پر بھی لوگ نماز کی ادائیگی پر اعتراض کرتے ہیں تو ان مقامات پر نماز پڑھنے دینے کی اجازت واپس لے لی جائے گی۔ ایسی صورت میں یہ سوالات جواب طلب ہیں کہ کیا 3 برس قبل مسلمانوں کو 37 مقامات پر نماز ادا کرنے کی اجازت دیتے وقت انتظامیہ نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ مقامات متنازع ہیںاور اگر سوچا تھا تو اب اس کا رجحان کیوں بدلا ہوا نظر آرہا ہے؟ کیا اس کے لیے سبھی مذاہب کے لوگوں کے مذہبی حقوق یکساں نہیں ہیں؟ کیونکہ ایک مقام پر اگر ایک مذہب کے لوگوں کو مذہبی فرض کی ادائیگی سے روکا جا سکتا ہے تو اسی مقام پر دیگر مذہب کے لوگ مذہبی فرض کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ آج ان سوالوں کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے، کیونکہ گروگرام کے سیکٹر 12 اے میں جس جگہ نماز ادا کی جاتی تھی، کل جمعہ کو اسی جگہ گووردھن پوجا کی گئی۔ اس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈرکپل مشرا نے دہلی سے جاکر بطور خاص شرکت کی اور وہاں اسی طرح کے بیانات دیے جن کے لیے وہ مشہور ہیں۔
کپل مشرا کا یہ کہنا ہے، ’اگر مختلف مذاہب، مکتب فکر اور فرقے کے لوگ ہر ہفتے ایک دن کھلے عام مقامات پر قبضہ کر لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں سبھی سڑکیں اور پارک مسدود ہو جائیں گے۔‘کیا اب ان سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ کانوڑیوں کی وجہ سے ہر سال ٹریفک روٹ بدل دیے جاتے ہیں، عام شاہراہوں پر گھنٹوں جام لگ جاتا ہے، جن میں این ایچ-58 پر جام لگنے کی بھی خبریں آتی رہی ہیں، تو اس سلسلے میں ان کا کیا خیال ہے، کیونکہ کانوڑیوں کو اپنے مذہبی فرض کی ادائیگی کا حق ہے اور اس ملک کی خوبی ہی یہی ہے کہ یہاں کے لوگ کسی کے مذہبی فرض کی ادائیگی میں حائل ہونے کو برا سمجھتے رہے ہیں بلکہ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں، اس لیے کئی جگہوں پر کانوڑیوں کی سہولتوں کے لیے مسلمان بھی پیش پیش رہتے ہیں اور ان کے لیے جگہ جگہ سبیل کا اہتمام کرتے ہیں ،مہاراشٹر میں گنیش اتسو منایا جاتاہے تو اس کے جلوس کے شرکا کا استقبال مسلمان بھی کرتے ہیں۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے وطن عزیز ہندوستان کو کثرت میں وحدت والا ملک کہا جاتا ہے۔ کانوڑ یاترا میں خاصا وقت لگے یا جمعہ کی نماز ادا کرنے میں کچھ منٹ لگیں، یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے ایشو بنا دیا جائے۔ گروگرام میں مسلمانوں کے عوامی مقامات پر نماز جمعہ ادا کرنے پر اگر کپل مشرا کوئی سیاست نہیں کرنا چاہتے ہیں اور وہ مسلمانوں کے نماز ادا کرنے کے نہیں بلکہ عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کے خلاف ہیں تو گروگرام میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے، انہیں کھٹّر حکومت سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ بند مسجدوں کو مسلمانوں کے لیے کھول دے، مسلمان اگر کہیں مسجدیں بنانا چاہتے ہیں تو انتظامیہ سے یہ کہے کہ وہ امن قائم رکھتے ہوئے مسلمانوں کو مسجد بنانے دے، کیونکہ مسجد کی تعمیر پر بھی اعتراض کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ 2016 میں شیتلا میں تعمیر کے بعد مسجد سیل کر دی گئی تھی۔ اب ظاہر ہے، مسلمان قفل لگوانے کے لیے تو مسجدیں نہیں بنوا سکتے۔ پھر یہ کہ وقف بورڈکی 19 قدیم مسجدیں بند ہیں، کھٹرحکومت انہیں کھلواکر مسلمانوں کو یہ مثبت اشارہ دے سکتی ہے کہ مذہبی فرائض کی ادائیگی میں وہ ان کے لیے سہولتیں فراہم کرانا چاہتی ہے مگر اس کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS