کیا رنگ لائے گی راہل کی آبلہ پائی

0

انجینئر خالد رشید (علیگ)

راہل کی بھارت جوڑو یاترا اپنے 108 دن اور متعین فاصلے کا دو تہائی فاصلہ طے کرنے کے بعد لال قلعہ کے میدان میں 8 دن کے لیے رک گئی۔ دوسرا مرحلہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو3 ؍ فروری کو شروع ہوگا اس پہلے مرحلہ میں کانگریس نے کیا حاصل کیا؟ راہل گاندھی کی شخصیت میں کیا تبدیلی رونما ہوئی؟ کیا 2024 کے انتخابات پہ اس یاترا کا کوئی اثر ہوگا؟ کیا بے نظمی سے جو جھتی کانگریس کیا اپنے اندرونی خلفشار پہ قابو پا سکے گی؟ کیا راہل سے پپو کا ٹیگ اتر جائے گا اور ملک کو ایک قدآور لیڈر مل جائے گا جو مستقبل میں مودی کا متبادل بن سکے؟ یہ ان سوالات میں سے کچھ سوال ہیں جو ملک کے ہر شہری کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں اور سیاسی تجزیہ نگار کی توجہ کا مرکز ہیں حالانکہ نام نہاد گودی میڈیا راہل کے ٹی شرٹ میں اٹکا ہوا ہے۔ یاترا کا ابتدائی دنوں میں بحث کا موضوع یہ تھا کہ راہل چالیس ہزار کی شرٹ پہن کر واک کر رہے ہیں اب جب یہ یاترا اپنا دو تہائی فاصلہ طے کر چکی ہے تو اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ راہل کی ٹی شرٹ میں کوئی ہیٹر تو پوشیدہ نہیں جو ان کو سردی سے بچا رہا ہے لیکن پس پردہ کانگریس کے ہمدردوں اور جمہوری قدروں کے علمبرداروں کے علاوہ بی جے پی اور سنگھ بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہیں کہ راہل کی اس بامشقت یاترا کا ملک کی سیاست پہ کیا اثر مرتب ہوگا سطحی طور پر تو بی جے پی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اس یاترا سے ملک کی انتخابی صورت حال پہ کوئی اثر ہوگا وہ تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ راہل کے بھارت جوڑو کے نعرہ کی گونج کو وہ اس قسم کی فرقہ پرستی کی دھول میں غائب کر دیں گے جیسے ہماچل میں چین کی دراندازی کو دیپکا پاڈوکون کی بھگوا بکنی کے مصنوعی طوفان میں غائب کر دیا گیا۔ بی جے پی اور سنگھ بخوبی جانتے ہیں کہ اصل ایشوز کو چھپانے کے لیے کس طرح مصنوعی ایشو کھڑے کیے جاتے ہیں اس کی تازہ مثال اس موجودہ بھگوا رنگ کے تنازعے میں موجود ہے اس لیے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سنگھ راہل کی یاترا کے سیاسی اثرات کی کاٹ کے لیے کیا حکمت عملی تلاش کرتی ہے بظاہر تو بی جے پی والے یہی کہہ رہے ہیں کہ یاترا کے درمیان ہونے والے انتخابات میں جس طرح ووٹرس پہ کوئی اثر مرتب نہیں ہوا اسی طرح آنے والے عام انتخابات پر بھی یاترا کوئی اثر نہیں ڈال پائے گی لیکن اگر اندر کی بات کریں تو سنگھ راہل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور یاترا میں آنے والی بھاری بھیڑسے خوف زدہ نظر آتی ہے میری رائے میں اس سوال کاصحیح جواب 2023 میں ملے گا جب 9ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوںگے ان میں 4 ریاستیں وہ ہیں جہاں کانگریس پہلے سے اچھی پوزیشن میں ہے وہ ہیں کرناٹک، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان اگر کانگریس ان 4ریاستوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا سہرہ راہل کی یاترا کے سر باندھا جائے گا یہاں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ ان ریاستوں میں جن کو دانستہ طور پر یاترا کے روٹ میں شامل کیا گیا تھا یاترا کو بہت اچھا رسپونس بھی ملا ہے۔ اس کا انتخابی سیاست پہ کتنا فرق پڑنے والا ہے اس کا جواب تو مستقبل کے بطن میں پوشیدہ ہے لیکن راہل کی اس تاریخی یاترا نے کچھ واضح پیغام دے دیے ہیں جن سے ان کے مخالف بھی اتفاق کر رہے ہیں۔ پہلا پیغام تو یہی ہے راہل اب وہ راہل نہیں رہے جن کو بی جے پی پپو کہہ کر نظر انداز کر دیا کرتی تھی مستقبل میں راہل کے بیانات کو نظر انداز کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوگا۔ یاترا کا دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ راہل نے بی جے پی کے اس نعرے کا جواب بڑی جواں مردی سے دے دیا ہے جو پریوار واد کے نام سے لگایا جاتا تھا۔ اب بی جے پی کو ان کی مخالفت کرنے کے لیے کوئی نیا نعرہ تلاش کرنا ہوگا اب عوام سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ راہل تو ایئر کنڈیشن میں بیٹھ کر بیان دے دیتے ہیں ان کو ملک کے حالات کا اندازہ نہیں اور وہ اس لیے کانگریس کے لیڈر بن گئے ہیں کیونکہ وہ راجیو کے بیٹے اندرا کے پوتے اور نہرو کے نواسے ہیں۔ یاترا کا تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ کانگریس کی اندرونی سیاست میں راہل کا قد اور بڑھے گا جس کے نتیجہ میں مستقبل میں کوئی G23,قسم کا گروپ پیدا نہیں ہوگا۔ تیسرا واضح اشارہ جو اس یاترا نے دیا وہ یہ ہے کہ کانگریس اپنے پرانے سیکولر راستہ پہ لوٹنے کے لیے تیار ہے اور وہ اپنے نظریہ سے کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی۔ ایک پیغام اور جو راہل کے سیاسی شعور کی عکاسی کرتا ہے وہ اٹل بہاری واجپئی کی سمادھی پہ جاکر انہوں نے دیا وہ پیغام یہ ہے ان کے دروازے بی جے پی کے ان لیڈران کے لیے کھلے ہوئے ہیں جو اٹل بہاری واجپئی کی طرح معتدل نظریہ رکھتے ہیں شاید یہ دعوت نامہ ہے ان بی جے پی رہنماؤں کے لیے جو مودی اور امت شاہ کے تانا شاہی سے پریشان ہیں۔ بہرحال راہل کی یہ 150 دن کی یاترا عوام کے ذہنوں سے اس آلودگی کا کتنا حصہ صاف کر پائے گی جو برسوں سے پھیلائی جا رہی ہے یہ کہنا اور مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے بھارت کو گاندھی نہرو کے خوابوں کا بھارت بنانے کے لیے راہل کو اور یاترائیں بھی کرنی پڑیں ایک خوشنما تبدیلی جو بھارت جوڑو یاترا میں دیکھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ غیر کانگریسی جماعتوں اور غیر سیاسی اہم شخصیات نے بھی بھارت کو جوڑنے کی اس مہم میں حصہ لیااور راہل کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے رہے۔ مہاراشٹر میں شرد پوار اور ٹھاکرے کی حمایت پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کی یاترا میں شمولیت اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ حزب اختلاف کے اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے اور ان کو یہ بات سمجھائی جا سکتی ہے کہ ملک کی جمہوریت کو جو خطرہ لاحق ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونا کتنا ضروری ہے ۔ راہل کا سب سے پہلا امتحان کرناٹک میں ہوگا جہاں 2023 کے مئی تک انتخانات ہوںگے۔ کرناٹک میں کانگریس کے لیے حالات کافی سازگار ہیں عوام بی جے پی سے خاصے ناراض ہیں۔ بی جے پی اندرونی اختلافات کا شکار ہے، کھڑگے فیکٹر بھی کانگریس کی مدد کر سکتا ہے اگر کانگریس کرناٹک میں بی جے پی سے اقتدار چھین لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے لیے نہ صرف راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کی راہ آسان ہوگی بلکہ 2024 میں وہ بی جے پی کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے ۔
یوں تو سیاست ایک پیچیدہ کھیل ہے عام انتخابات میں بھی کافی وقت باقی ہے ۔ بی جے پی کے پاس بہت ہتھیار ہیں وہ الیکشن جیتنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن راہل کو عوام کی جو حمایت اس بھارت جوڑو یاترا کے دوران ملی ہے اس سے لگتا تو یہی ہے کہ ان کی ناآبلہ پائی ہندوستان کی سیاست پر کوئی مثبت اثر ضرور مرتب کرے گی جس کا نتیجہ بھلے ہی 2024 کے عام انتخابات میں نظر نہ آئے لیکن اس کے دور رس نتائج ضرور ملک کی سیاست کو متاثر کریں گے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS