شاہنواز احمد صدیقی
2011 میں عرب بہاریہ میں جن ملکوںمیں بغاوت اورجمہوریت نظام کے مطالبہ کو لے کر مظاہرے ہوئے تھے، ان ممالک میں آج تک کوئی مستحکم نظام حکومت قائم نہیں ہوسکا۔ اسی اتھل پتھل کا اثر وہاں کے قرب وجوار ملکوں کے حالات پر پڑا۔ اس میں شام، بحرین، کسی حد تک عراق، تیونس، مصر قابل ذکر ہیں۔ اس تباہی کا سب سے زیادہ اثر شام اورعراق پرپڑا۔ یہ ملک شام نہ صرف یہ کہ خانہ جنگی کی وجہ سے برباد ہوگیا ہے جبکہ آس پاس کے ممالک بطور خاص عرب ملکوں سے بھی کٹ گیاحالانکہ شام اسرائیل کے خلاف عربوںکے اتحاد کا اہم رکن تھا اور ان فلسطینیوںکی متحدہ حکمت عملی میں اس کا منفرد مقام تھا۔ شام نے 1967میں متحدہ عرب فوج کی کارروائی میں اہم رول ادا کیا اور جن ملکوں کی سرزمین کو اسرائیل نے ہڑپ لیا ہے، اس میں شام سب سے اہم ہے۔ بعد میں اسرئیل نے جولان کی پہاڑیوں پربھی قبضہ کرکے پورے خطے کو اپنی ریاست کا حصہ لیا۔
بہرکیف خانہ جنگی اور برادرکشی کے طویل دور کے بعد آج شام ہر اعتبار سے کمزور اور منتشر ملک ہے، شام میں امریکہ، ترکیہ، روس، ایران اورروس کے فوجی اور دفاعی ماہرین ہیں اور اسرائیل بھی جب چاہتاہے فوجی کارروائی کر دیتاہے، زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں اس نے حال ہی میں سفاکانہ کارروائی تھی۔ ترکی اور شام میں حالیہ تباہی کے بعد یوروپی اتحادنے ان دونوں ملکوں میں تعمیرنو پرتوجہ دی ہے اور عرب اور پڑوس ممالک نے بڑی فیاضی کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اس بابت پہل یواے ای نے کی تھی مگر بحرین، سعودی عرب، مصروغیرہ نے آگے بڑھ کر شام کی پریشانی کو ختم کرنے کے لیے غیرمعمولی دلچسپی دکھائی ہے۔ یواے ای چاہتا ہے کہ شام میں جنگ بندی ہ، عوام کا قتل عام بند ہو اور یہ ملک ماضی کی طرح ترقی یافتہ اور خوش حالی بنے۔ مغربی ایشیا اور عرب ممالک میں مصر کا رول قائدانہ ہے۔ حماس اور پی ایل او وغیرہ کے ثالثی، حماس اور اسرائیل اور دیگر فریقوں کے مابین مصالحت، جنگ بندیاں اور مراسم وروابط شروع کرانے میں مصری سفارت کاروں کا کردار غیرمعمولی ہے۔ شام کے صدربشارالاصد کے معاملہ میں بھی مصر نے ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے، کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔مصرچاہتاہے کہ رسد کی منتقلی کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کھول دی جائے اورترسیل بلاروک ٹوک ہو۔
ان خطے کے ملکوں نے انسانی اقدار کی بنیاد پر تعاون کو فروغ دینے اور متاثرین کو بہتر اور فوری مدد پہنچانے کے لیے اقدام شروع کردیے۔ خطے کے ممالک چاہتے ہیں کہ شام میں انسانی جانوں کے اتلاف کوختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کیے جائیں۔ اسی پوری سفارتی مشق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خطے کے تین ممالک مصر، ترکیہ اور شام ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ مصر کے وزیرخارجہ کا ترکیہ جانا، اس خطے اور دومتضاد نظریات والے ممالک کے درمیان فاصلوں کو کم کرناہے۔ ترکیہ اور شام کے تعلقات میں ترشی اورتلخی واجبی تھی کیونکہ شام میں ترکیہ کے فوجی ہیں اور بڑے خطے پرترکیہ کی فوج قابض ہے۔ پچھلے دنوں روس نے دونوں شام اور ترکیہ کے درمیان مصالحت کراکے اختلافات کم کرنے کی کوشش کی تھی مگر شام کا اصرار تھا کہ پہلے ترکیہ کی فوجوں کا شام کے علاقوں سے انخلا ہو۔ لہٰذا اس وقت کوئی پیش رفت یامفاہمت نہیں ہوسکی۔ مگر اس زلزلہ نے مغربی ایشیا کے مسلم اور عرب ملکوں کی دیواریں کافی حد تک مسمار کردی ہیں حالانکہ یہ صورت حال ابتدائی ہے مگر انسانی قدروں پر تعلقات کی استواری اس بابت اہم پیش رفت ہے۔ بشارالاسد کا مصر کے ہم منصب عبدالفتح السیسی سے بات کرنا خوش آئند ہے۔ بشار الاسد نے عمان کا دورہ کیا ہے۔سعودی عرب اور یواے ای متاثرین کی بازآباکاری کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ سعودی عرب جوعالم اسلام اورعرب ملکوں کی قوت ہے، نے بھی عرب لیگ میں شام کی شمولیت کو لے کر اہم بیان دیاہے۔ یاد رہے کہ ترکیہ نے مصر کے سابق صدر مرسی کو حمایت دی تھی۔ طیب اردگان اخوان المسلمین کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور اسی وجہ سے دونوں ملکوں میں 2013معمول کے میں سفارتی تعلقات بھی ختم ہوگئے تھے۔
مصراورترکیہ میں تلخ تعلقات کی ایک اوروجہ لیبیا بھی رہاہے۔ مصرلیبیا میں کافی سرگرم ہے۔ لیبیا میں ترکی کا بڑاعمل دخل ہے۔ ظاہرہے مصر کے اپنے مفادات ہیں اور لیبیا میں مصر ایسے حالات چاہتاہے جواس کی خارجہ سلامتی اور سرحدی تحفظ کے لیے خطرہ نہ ہو۔لیبیا میں جمہوری نظام کے قیام کے امکانات پیداہوئے ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ عالمی برادری کی دلچسپی وہاں خانہ جنگی کے حالات کو ختم کرنے کی ہے۔ ظاہرہے کہ ایک اہم پیش رفت ہے اور لگتا ہے کہ شام لیبیا اور عراق میں حالات بہتر ہوں گے۔اسی طرح کی خوش کن خبر عراق سے بھی آرہی تھی کہ وہاں امریکہ اعظم سوڈانی کی بانہہ مروڑنے کی کوشش کررہاہے مگر پھر بھی خانہ جنگی کے خاتمہ کا امکان روشن نظر آرہاہے۔ اس بابت لبنان کی صورت پیچیدہ ہے مگر کئی فریقوں نے اپنے موقف میںنرمی دکھائی ہے۔n