کرناٹک : بی جے پی کیلئے زمین تنگ ہورہی ہے ؟

0

شمالی مشرقی ریاستوں میں حالیہ کامیابی کے بعد بی جے پی کے لیے جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں جھٹکا لگا ہے، وہاں بی جے پی کی حکومت کے جھٹکا لگا ہے۔ اس کا ایک ایم ایل اے کے گھر سے بھاری رقم برآمد ہونے سے کھلبلی مچ گئی ہے۔ بی جے پی وہاں اپنی انتخابی بساط بھچا چکی تھی۔
جنوبی ہندوستان کی اہم ریاست کرناٹک میں انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنی پوری توجہ مرکوز کردی ہے۔ پچھلے دنوں وزیراعظم نریندر مودی نے ایرو انڈیا کا افتتاح کیا اور ایک یلوے اسٹیشن کے ترقیاتی اور جدید کاری پروگرام کا بھی افتتاح کیا۔ بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ امت شاہ نے ریاستی پارٹی کی قیادت تقریباً اپنے ہاتھ میں لے لی ہے او وہاں پر موجودہ وزیراعلیٰ بسو راج بومئی اور سابق وزیراعلیٰ یدو رپا کو ساتھ میں لے کر کمان کسی تیسرے اور شاید ناتجربہ کار نوجوان لیڈر کے ہاتھوں میں دی جاسکتی ہے۔
شاید بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ گجرات، تری پورہ اور اسی طرح دوسری ریاستوں میں کیا گیا تجربہ کرناٹک میں کیا جائے اور کسی ایک ایسے کمزور لیڈر کے ہاتھ میں کمان دی جائے جو بعد میں مرکز کو آنکھیں نہ دیکھائے۔ راجستھان میں بھی بی جے پی کے سابقہ تجربات اچھے نہیں ہے۔ جہاں وسندھرا راجے سندھیا نے طویل مدت تک عہدے پر متمکن رہ کر مرکز کو آنکھیں دکھانی شروع کردی تھی۔ بی جے پی نہیں چاہتی ہے کہ کرناٹک جیسی اہم ریاست میں جو کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے قیادت کو آزاد نہ چھوڑا جائے۔ بی جے پی کے اندرونی ذرائع کاکہنا ہے کہ ریاستی قیادت کے لیے بی جے پی کے جواں سال لیڈر جگ سوریہ کے نام پر غور ہورہا ہے۔ جن کے جارحانہ بیان بازی کئی مرتبہ قومی میڈیا کے سرخیوں میں رہی ہے اور وہ کرناٹک کے موجودہ سیاسی ماحول میں اس لیے بھی فٹ بیٹھتے ہیں کہ وہ بنگلور کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ذات کے برہمن لیڈر ہیں اور اس جنوبی ریاست میں برہمنوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ جگ سوریہ جیسا نوجوان آگے چل کر وہ خطرناک صورت حال پیدا کرسکے یا مرکز کو کو آنکھ دکھائیں جیسا کہ یدورپا یا موجودہ وزیراعلیٰ باسا ورجہ بومئی نے کررکھی ہے۔
کرناٹک میں ذات پات کی سیاست بہت مضبوط ہے اور مقامی لیڈر اسی بنیاد پر پارٹی اپنی پوزیشن پر اصرار کرتے ہیں اور بعض اوقات مرکزی قیادت کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ بہر کیف بی جے پی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کانگریس پارٹی نے راہل گاندھی کی حالیہ بھارت جوڑو یاترا میں کامیابی کے بعد ریاست کا رخ نہیں کیا ہے۔ پچھلے دنوں پرینکا گاندھی نے ضرور ایک میٹنگ کرکے ہر گھر کو 2000روپے ماہانہ اور200 یونٹ مفت بجلی جیسے دلفریب اعلانات کیے ہیں۔ شاید وہ دہلی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے تجربات کو دہرانا چاہتی ہیں۔ کانگریس پارٹی چاہتی ہے کہ ریاست کی مقامی قیادت خاص طور پر عوام کے بنیادی مطالبات پر توجہ زیادہ مرکوز کرے۔ کانگریس کی حکمت عملی ریاست کی لیڈر شپ کو آگے بڑھانے کی ہے تاکہ ریاست کے عوام کو یہ احساس ہوکہ ریاست میں انہی کی اور ریاستی لیڈروں کا کنٹرول حکومت ہے ناکہ مرکز کی کوئی قیادت یا طاقتیں ریاستی سرکار کو کنٹرول کررہی ہیں۔
ریاست میں ایک تیسری طاقت جنتا دل سیکولر کی ہے۔ جنتا سیکولر ریاستی سطح کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا دائرہ کار جنوبی کرناٹک میں ووکا لگا پر مرکوز ہے۔ یہ ہاسن ضلع کے وہ علاقے ہیں جہاں پر دیو گوڑا خاندان کا اثر رسوخ زیادہ ہے۔ اس علاقے میں وہ اپنے اہل خانہ کو ٹکٹ دے کر اپنا عمل دخل ریاستی سرکار میں برقرار رکھنا چاہتے ہوں۔ وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے پر اپنے لیڈر کمارا سوامی کو فائز کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
بی جے پی جیسا کہ اوپر کی سطر وںمیں بتایا گیا ہے کہ مودی امت شاہ کی قیادت کو آگے رکھ کر اپنا انتخابی دائو پیچ کھیلنا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ پچھلے دنوں کرناٹک کے حالات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ بی جے پی کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ جنتا دل سیکولر کے لیڈر ایم ڈی کماراسوامی کی قیادت والے کانگریس جنتا دل سیکولر اتحاد کی سرکار کو اقتدار سے بے دخل کرکے یدو رپا کو وزیراعلیٰ بنا یا گیا تھا لیکن بعدمیں ان کے خلاف کرپشن الزامات سامنے آنے کے بعد قیادت میں تبدیلی کی گئی اور موجودہ وزیراعلیٰ بومئی کو ذمہ داری سے سونپی گئی مگر پارٹی کو الزامات کی بوچھاڑ سے نجات نہیں ملی اور جس وقت یہ سطور لکھی جارہی تھیں اس وقت بی جے پی کے ایک ایم ایل اے اس کے بیٹے اور ایک کے قریبی افسر کے بیٹے کے گھر پر چھاپہ ماری کے دوران زبردست نقدی کا نکلنا بی جے پی کی پوزیشن مزید کمزور کرنے والا ہے۔ بی جے پی ایم ایل اے منڈل ویدوپا کشپا کے گھر سے 1.25کروڑ روپے اور بیٹے پر اشتاتھ منڈل کی رشوت قبول کرتے ہوئے گرفتاری کے بعد ریاستی سیاست میں طوفان آگیا ہے۔ ایم ایل اے تادم تحریر فرار ہے۔ ایم ایل اے صاحب چنا گری کی نمائندگی کرتے ہیں اورریاستی سرکار کے ادارے کرناٹک سوپ اینڈ ڈیٹر جینٹ لمیٹڈ کے (ایس ڈی ایل)کے چیئرمین ہیں۔ ان کا بیٹا پرشانت منڈل بنگلور واٹر سپلائی اینڈ سویج بورڈ (بی ڈبلیو ایس ایس بی)کا سربراہ ہے۔
بہر حال بی جے پی کو اس بات کا بھی قلق ہے کہ اس نے اپنے بل بوتے پر کبھی بھی اکثریت حاصل نہیں کی ہے۔ یا تو اس نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے یا دیگر پارٹیوں کے ممبران اسمبلی کو توڑا ہے اور پھر حکومت بنائی ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ان تمام چیلنجز کے باوجود وہ جنوبی کرناٹک میں جنتا دل سیکولر ووٹ بینک میں سیندھ لگائے جوکہ ووکا لگا اکثریتی علاقہ ہے۔ اس کی یہ حکمت عملی اس لیے بھی بظاہر کارگر ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ اس کے پاس سابق وزیرخارجہ اور کانگریس کے سابق لیڈر لیڈر ایس ایم کرشناجیسا چہرہ بھی ہے جو پہلے کانگریس میں تھے ۔ انہوںنے بی جے پی میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔ بی جے پی کو لگتا ہے کہ ان کے آبائی ضلع مانڈیا میں بی جے پی کچھ بہتر کرسکتی ہے۔ کچھ مبصرین کی رائے ہے کہ بی جے پی کی حکمت عملی بیک فائر کرسکتی ہے کیونکہ کرناٹک میں نئی لیڈر شپ کا ابھرنا آسان نہیں ہے ۔
قیادت روایتی انداز کی ہے جو ذات پات اور علاقائی کی وابستگی پر مبنی رہتی ہے ایسے مقامی لیڈر شپ کو نظرانداز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کے لیے پریشانیاں کم نہیں ہے مگر اس کی ریاستی لیڈر شپ آپسی اختلافات کے پس پشت ڈالنے میں کامیاب رہی ہے اور ڈی کے شیو کمار اور سدھا رمیا کافی حد تک ایک دوسرے پر حملہ آور دکھائی نہیں دیتے۔ شاید یہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا نتیجہ ہے۔ کانگریس پارٹی بھی نہیں چاہتی ہے کہ وہ دہلی میں بیٹھ کر کرناٹک کے اختلافات یا امور کو دور کرنے میں توجہ دے۔ کرناٹک کے امور کو وی کی لیڈر شپ دیکھے اور یہ تاثر دے کہ کرناٹک کانگریس کی لگام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
بہر حال وقت بہت کم ہے بی جے پی نے پورا زور لگا کر انتخابات سے پہلے کا ماحول تیار کرنا شروع کردیا ہے اور مودی کو ایک مضبوط اور لائق لیڈر کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے جو کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کرناٹک کے امور میں دلچسپی لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ لوکل بنام قومی سیاست کے اس مقابلہ میں کون کامیاب ہوگا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کرپشن کے الزامات کے طوفان کا سامنا کیسے کرتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS