اُردن میں بچھایاگیا مذاکرات کاجال

0

ایک طرف ارض فلسطین میں تشدد، قتل و غارت گری کا بازارگرم ہے تودوسری طرف اردن کی مصالحت اور میزبانی میں قیام امن کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ان مذاکرات کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے مسلح فلسطینی گروپ ان کوششوں کو رد کرچکے ہیں تو دوسری طرف اسرائیل کی کابینہ کے ممبران نے مغربی کنارے میں یہودیوں کے لیے بنائی جارہی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کی مخالفت کی ہے۔
اردن کے بحراحمر کے ساحلی سیاحتی مرکز العقبۃ میں ہونے والے مذاکرات میں مصر،امریکہ شرکت کررہے ہیں۔ ان ممالک نے امیدظاہر کی ہے کہ کشیدگی ختم ہو اور تصادم کی صورت حال ختم ہو۔ فلسطین اوراسرائیل میں اصل اور بنیادی ایشو کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے درمیان مذاکرات ایک طویل عرصہ کے بعد ہورہے ہیں۔خیال رہے کہ ان مذاکرات کا مینڈیٹ مغربی کنارے اور دیگر فلسطینی علاقوں میں کشیدگی کوختم کرنا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کاجامع حل نکالنا عالمی برادری خاص طور امریکہ اوردیگریوروپی ممالک جو مذاکرات کرانے میں ناکام رہے ہیں اور اسرائیل میں نئی بنجامن نتن یاہو کی قیادت والی سخت گیرعناصر کی حکومت کی حلف برداری کے بعد، یہودی ریاست اس طرح کی کوششوں میں پہلی بار شامل ہورہی ہے۔ کئی ممالک بشمول روس اور چین کئی مرتبہ اصرار کرچکے ہیں کہ اقوام متحدہ اور دیگرفریق مذاکرات شروع کریں تاکہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی پرزور کوششیںکی جائیں۔ مگرایک طرف توامریکہ اوراس کے حلیف ممالک مغربی ایشیا میں ناٹو فوجی سمجھوتے کی توسیع چاہتے ہیں تو دوسری طرف ان کواس مسئلہ کو حل کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں ہے اور یہ ممالک صرف اور صرف ایران کو کنٹرول اوراس کے نیوکلیئر پروگرام کو روکنے پرہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ خطے کے ممالک اگرچہ اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کررہے ہیں مگران کو اس بات کا بھی شکوہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہاہے اور نہ دلچسپی ہی ظاہرکی جارہی ہے۔
اسرائیل کا کہناہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی ’دہشت گردی‘ کو کنٹرول کرنے اور اس کی سرکوبی کرنے میں اسرائیلی حکام اور اہلکاروں کی مدد کرے، فلسطینی اتھارٹی نے حالیہ کشیدگی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی مسلح دستوں کی من مانی اور جارحانہ کارروائیوں کے بعد قابض حکومت کے ساتھ تعاون موقوف کردیاہے۔ اس سے حالات اور پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ علاقے میںتصادم میں اضافہ ہوا ہے اور عالمی برادری کی توجہ اس تنازع پر مرکوز ہوگئی ہے ۔ دراصل امریکہ اور اس کے حلیف ممالک چاہتے ہیں کہ یوکرین جنگ ہی میڈیا اور عالمی سیاست کا مرکز رہے اور کوئی دوسرا تنازع عالمی برادری کی توجہ نہ بٹورے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اس بابت ایک قرارداد پر ووٹنگ ٹالنے میں امریکہ اوراس کے حواری کامیاب ہوگئے تھے مگر اب بھی مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کا استبداد جاری ہے۔ اسرائیل کی فوج نے حالات کو اس قدربگاڑدیاہے کہ عام بازاروں اور شاہراہوں پر فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان تصادم عام ہوگئے ہیں اور پورامعاشرہ سرگرم تشدد کی راہ پر جارہاہے۔اس بدبختانہ صورت حال کے پس پشت اسرائیلی فوجی دستے جو مسلسل عام فلسیطنیوں کے خلاف یہودیوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں، ان مذکرات کا کوئی خاطرخواہ فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے مگر اسرائیل کا اس بات پر زور ہے کہ فلسطینی اتھارٹی دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کے ساتھ تعاون کرے، اسرائیل کی نظر میں جدوجہد آزادی فلسطینی کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے اور اسرائیل کے دستوں کے خلاف برسرپیکار فلسطینیوں کو اس کے حوالے کیا جائے اور اس کے فوجی آپریشن میں مدد کی جائے۔
اردن میں ہونے والے مذاکرات میں فوجی حکام خفیہ ایجنسیوں کے اہلکارشامل رہے ہیں۔ان مذاکرات میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے کوآرڈی نیٹر برائے مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ میک گرلک، اردن اور مصر کے سیکورٹی حکام امریکی سیکورٹی ایڈوائزر جیک سیلوین نے شرکت کی ہے۔ ارض فلسطین میں سیکورٹی علاقے کی سیکورٹی کے حالات سے ہی نہیں بلکہ گردونواح کے پورے ماحول سے متاثرہوتی ہے اور اسی وجہ سے عالمی برادری مقامی تصادم اور ٹکراؤ کو ختم کرنے کے لیے وسیع تر مذاکرات کی خواہش مند ہے، مگر ابھی یوروپی اور امریکی سفارت کاروں کو یوکرین سے فرصت نہیں ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ حالیہ دھماکہ خیز صورت حال میں ایک دہ ہفتہ میں ان مسائل کا حل نکالنا ممکن نہیںہے، اس کے لیے قرب وجوار کے ممالک مذاکرات میں شامل کیے گئے ہیں، خاص طور پر مصر کے انٹلیجنس حکام اور سیکورٹی ماہرین مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں کافی سرگرمی سے ملوث رہتے ہیں۔ ان کا یہی اثر ورسوخ بعض اوقات حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالث کا رول ادا کرتا ہے۔
اردن میں ہونے والے ان مذاکرات کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کی حکومت تین سے چھ ماہ کی مدت کے لیے جنگ بندی کے لیے راضی ہوسکتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی چاہتی ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے میں تعمیرات بالکل روک دے اور ان بستیوں کو قانونی طورپر تسلیم کرنے کی بات بھی نہ کرے، اسرائیل مغربی کنارے پر نئی بستیاں تعمیر کرناچاہتا ہے، ان بستیوں میں ساڑھے نو سومکانات ہوں گے۔ ان تعمیرات کے بارے میں وزیرخزانہ اسرائیل جو کہ شدت پسند پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، کوئی یقین دہانی کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وزیرخزانہ بنزائل اسمورٹیچ(Bezalel Smortrich)کے پاس مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیرات کی بھی وزارت ہے اور ان ہی بستیوں کی تعمیر کے ایشو کو اچھال کر فلسطینیوں کو پریشان کرنے اور وہ اوران کی وزارت یہودیوں کو خوش کرنے کا پورا ایجنڈا طے کرتے ہیں۔ یہی سخت گیر عناصر ان کا ووٹ بینک ہیں۔ظاہر ہے کہ ان بستیوں پرتعمیرات کا سلسلہ رکنا ان کی وزارت کا غیرسرگرم ہونا ہے اور اس سے ان کے ہاتھ کا سیاسی ہتھکنڈہ نکل جائے گا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS