کیا آتش فشاں پھٹنے والا ہے

0

آج مغربی کنارے کی گلیوں اورشاہراہوں میں خون خرابہ کی صورت حال ہے۔ صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کے لیے ایک نیا حربہ اختیار کیا ہے۔ دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے شدت پسندوں کو مقامی فلسطینیوں کے ساتھ متصادم کردیا ہے اگرچہ یہ طریقہ نیا نہیں، بلکہ بہت پرانا ہے۔ یہودی ریاست کی بنیاد اسی ’ٹکراؤ‘ اور ’تصادم‘ پررکھی ہوئی ہے۔ جب 1948میں النکبہ بنا ہوا تھا اور فلسطینی شہروں اور دیہی علاقوں میں کشت و خون کا بازار گرم کیاگیاتھا، اس النکبہ میں ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیاتھا اورنسلی تطہیر کی گئی تھی۔ مگر اس مرتبہ شدت پسند عناصر کی حکومت جارحیت کے نئے طریقوں کے ساتھ اور جدید حربوں کے ساتھ اس پالیسی کو اختیار کررہی ہے، فلسطینی علاقوں کو گھیر کے ان کی املاک کو نشانہ بنایا جارہاہے اوران کی گاڑیوں کو بڑے پیمانے پر نذرآتش کرکے، عام فلسطینی کو صدمات اور دشواریوں سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر لڑی جانے والی سفارتی جنگ اب فلسطینیوں کے گلی محلوں تک پہنچ گئی ہے۔ روزمرہ کی کشیدگی زبانی تصادم سے معاملہ آگے بڑھ گیا ہے اور پچھلے دنوں اسرائیلی وزیرخزانہ بیزائیل اسمارٹچ(Bezael Smortrich)نے ایک انتہائی متنازع بیان دیاجو کہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’اسرائیلی ریاست مغربی کنارے کے شہر حوارہ کو نقشہ سے مٹادے۔ اس بیان کے بعد دنیابھر سے لاکر بسائے گئے نوآبادکاروں نے تشدد اور آتش زنی کا وہ بازار گرم کیا کہ اسرائیل کا سوشل میڈیا اس پیغام سے بھرگیا۔ سماج میں زبردست کشیدگی دیکھی گئی اور کئی وارداتیں رونماہوئیں۔
اگرچہ اس مذموم بیان کو واپس لے لیاگیا مگر اس کے تین دن کے بعد حوارہ کی سڑکوں پر بربریت کا ناقابل یقین نظارہ دیکھاگیا۔ سفاکانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی اور امریکہ جو پل پل قدم قدم پراسرائیل اوراس کے حکمرانوں کی حمایت میں زمین آسمان ایک کیے ہوئے تھے، کو بھی کرب کا اظہار کرناپڑا اور حسب روایت وزیرموصوف نے میڈیا پرالزام رکھ دیا کہ ان کے بیان کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ وزیر کبیر نے دی مارکر (The Marker)کو دیے گئے انٹرویو میں کہاتھا ’حوارہ ایک باغیانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کا گاؤں ہے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں پیش پیش ہے۔ انھوںنے کہا کہ ’اسی گاؤں کے لوگ یہودیوں کے خلاف حملوں میں مصروف ہیں۔ ان پر پتھربرساتے ہیں اور ان پر فائرنگ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید زہرافشانی کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی ایک پتھر کے پھینکنے کے بدلے ایک فلسطینی کی دکان کو بندکردیاجاناچاہیے۔ ایک حملہ کے لیے ایک شخص(فلسطینی) کو گرفتار کرکے شہر(ملک)بدر کردینا چاہیے۔‘
یہ وہ ملک اسرائیل ہے جس کے حکمراں صلح رحمی عرب پڑوسیوں کے ابراہمی سمجھوتے کی بنیاد پر مراسم سفارتی، اقتصادی اوردفاعی—— کو فروغ دے رہے ہیں۔یہ سب کچھ امریکہ کی سرپرستی میں ہورہاہے اور دوسری طرف اندرون خانہ ارض فلسطین میں کشت وخون کا بازار گرم ہے۔ مغربی کنارے میں تصادم اور عوام کے درمیان جھڑپوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
پولیس کاکہنا ہے کہ تصادم کو روکنے کے لیے گرفتاری کی گئی ہیں۔ پولیس نے حالات بے قابو بنایا ہے، فلسطینیوں میں اس قدر بداعتمادی ہے کہ انہوںنے اپنے بچوں عورتوں اور ضعیفوں کے تحفظ کے لیے گارڈ کمیٹیاں بنائی ہیں۔ نوآبادکار یہودی پیٹرول حملہ کررہے ہیں کچھ کے پاس بیس بال کے بلے ہوتے ہیں اور اچانک حملوں میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے ترمز آیاTurmus Ayyaمیں جہاں چار ہزار افراد رہتے ہیں، حالات بہت سنگین ہوگئے ہیں۔ حملہ کرنے والے یہودی نوآبادکار ہیں۔اس بات کا اعتراف خود پولیس حکام کرتے ہیں، ترمزآیا کے چاروں طرف اسرائیل کی حکومت کی بنائی گئی فوجی بستیاں ہیں اور وہاں رہنے والے افراد کے حملوں کے پیش نظر فلسطینیوں نے اپنی جان ومال کے تحفظ کے لیے کئی مقامات پر خودحفاظتی پوسٹ بنائی ہیں۔
مغربی کنارے میں 29ملین فلسطینی رہتے ہیں۔ یہودیوں کی تقریباً475000کی آبادی ہے یہودی سرکار کی بنائی گئی عمارتوں میں رہتے ہیں اور ارض فلسطین کے باہر سے لاکر ان کو بسایاگیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ بستیاں غیرقانونی ہیں۔ تازہ ترین حملہ میں اسرائیل کی فوج نے 15سال کے ایک نابالغ لڑکے کو اس کی پیٹھ میں گولی مار کر موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔ فوج کی اس فائرنگ میں ایک اوربچے کی حالت نازک ہے۔ مغربی کنارے کے شہر ازوم (Azzoum)میں ہونے والی اس واردات پرفوج نے ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاہے کہ یہ مشتبہ لوگ فوج پردھماکہ خیز اشیاء کے ساتھ حملہ کررہے تھے، اس پرفوج نے گولی چلادی۔ شہر کے میئر نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی میں15سال کے محمدندال سلیم کی موت ہوگئی ہے۔یہ کارروائی فوجی چھاپہ مارتلاشی کے دوران ہوئی۔ ان حالات میں فلسطینیوں کو لگتا ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ فلسطین ماہرین اوروزیراعظم کے دفتر سے وابستہ رہے جمال دجانی (Jamal Dajani)کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں نوآبادکاروںسے تحفظ کے لیے عالمی اداروں اور ممالک سے تحفظ کی اپیل ہے۔ تشدد پسند نوآبادکاروں کو اسرائیلی فوج سے مکمل حمایت مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے کی کنٹرول والی فلسطینی اتھارٹی فلسطینی عوام کی حفاظت نہیں کرپارہی ہے۔ اس کا واحدحل یہ ہے کہ علاقے میں اقوام متحدہ کی فوج تعینات کردی جائے یا غیرملکی افواج کوتعینات کیاجائے۔ جمال دجانی کا کہناہے کہ اگراس طرح کے فلسطینی مخالف قتل عام چلتے رہیں گے تو ان کے پاس اپنے تحفظ کے لیے اقدام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ کئی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کا نقشہ دوبارہ بنانے کے لیے مشن پرکام کررہا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی علیحدہ خود مختار آزاد ریاست معرض وجود میں نہ آسکے۔ اس وجہ سے صرف نوآبادیہودیوں کے تحفظ پر اسرائیل کی فوج فوکس کررہی ہے۔
پی ایل او پبلک رلیشن محکمہ کے ڈائریکٹر انیس سوئیڈن کا کہناہے کہ ’حالیہ تشدد میں اضافہ نئے انتفاضہ کی شروعات دکھائی دے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو یہ حالات 1987سے 1993اور 2000سے 2005کے حالات کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ انیس سویڈن (Anees Sweidn)کا کہناہے کہ مذاکرات شروع کرنے میں دوریاستی فارمولے پرعمل آوری کے امکانات تلاش کیے جائیں، اس کے علاوہ کوئی اور اس مسئلہ کاحل نہیں ہے۔
اردن میں مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کو معدوم قراردیتے ہوئے ماہرین کا کہناہے ’ایسے حالات میں نہیں لگتا کہ فلسطینی اتھارٹی اوراسرائیل کسی سمجھوتے پرراضی ہوںگے اورحماس تو کسی بھی طورپر مفاہمت کو قبول ہی نہیں کرے گا۔
ادھرامریکی مبصر کارنیجی انڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس Carnegie Endoswment for International Peace کے سینئرفیلو ایرون دیوڈ ملیر کا کہنا ہے کہ ’امریکہ چاہے گا تنازع کا حل کرنے کے لیے سیاسی مذکرات شروع کیے جائیں مگرآج کے حالات میں یہ ممکن ہونا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
ملیر کاکہنا ہے کہ قلیل مدتی سمجھوتہ ضرور ہوسکتا ہے کہ اور رمضان ’پاس اوور‘ کے دوران کوئی افسوس ناک واقعہ پیش نہ آئے۔ ان کا کہناہے کہ یہ امکانات صرف اسی وقت تک ہی ہیں جب تک کہ کوئی اگلا دھماکہ نہ ہوجائے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS