شاہنواز احمد صدیقی
سعودی عرب پوری دنیا کے لیے روحانیت کا مرکز ہے۔ سعودی عرب اپنے تحفظ کو لے کر اس کے لیے زیادہ فکر کہ اسلام کے عظیم ترین اورمقدس ترین مقامات اس کی سرزمین میں ہیں۔ ان ممالک کے تحفظ میں کوئی کوتاہی یا خامی آتی ہے تو اس سے عالم اسلام کو روحانی جذباتی اورمذہبی نقصان پہنچے گا۔ ان اندیشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مملکت سعودی عربیہ امریکہ سے بدلے ہوئے حالات اورپیچیدگیوں کے مدنظرمذاکرات کر رہا ہے۔ سعودی عرب پرمسلسل اس کا دباؤ ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرے مگر سعودی عرب کا اصرار ہے کہ جب تک اس کے خود کے مسائل اور اندیشے دور نہیں کیے جاتے اور فلسطینیوں کوان کا قانونی حق اور امن وتحفظ کی گارنٹی نہیں مل جاتی تب تک سعودی عرب یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ دیرینہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ سے اس کے اندیشوں پرغور کرنے کے لیے کہاجاتارہاہے مگر امریکہ اپنے روایتی اور اسرائیل کے تئیں غیرمعمولی جھکاؤ کو مدنظررکھتے ہوئے اسے نظرانداز کررہاہے۔ اب خبر یہ آرہی ہے کہ سعودی عرب اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوبارہ چین سے تعاون حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہے۔ سعودی عرب امریکہ سے مایوس ہونے کے بعد اب نیوکلیئر پلانٹ کی تعمیر کے لیے چین کی مدد حاصل کرنے پر غور کررہاہے۔ امریکہ کے مایہ ناز میڈیا ادارے وال اسٹریٹ جرنل نے اس بابت ایک اسٹوری شائع کی ہے۔ چین کی سرکاری کمپنی چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن (سی این این سی) نے قطر اور متحدہ عرب امارات کی سرحد سے قریب نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے کی تجویز رکھی ہے۔ اس اخبار نے سعودی ذرائع سے خبردی ہے کہ امریکہ چاہتاہے کہ سعودی عرب اس کو یقین دہانی کرائے کہ وہ خودیوروینیم افزودگی نہیں کرے گا، یعنی نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی کوشش نہ کرے گا۔ تب ہی امریکہ سعودی عرب کی نیوکلیئر پاورٹ پلانٹ کی تعمیر پر غور کرے گا۔ چین جو کہ بڑی نیوکلیئر طاقت ہے اور بغیرشرائط اور مغربی ایشیا سعودی عرب یا کسی بھی دوسرے ملک میں تعاون سرمایہ کاری کرنے کے لیے کوئی پیشگی یقین دہائی نہیں چاہتا، کیونکہ اس خطے میں اس کے دیگر عزائم نہیں ہیں، لہٰذا سعودی عرب کا اپنی شرائط پرتعاون کے لیے مجبور کرنے کا امکان نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے کہ آج مغربی ایشیا میں چین کو بڑے پروجیکٹ مل رہے ہیں اور ایشیائی اور افریقی ممالک بلا خوف چین سے صنعتی، اقتصادی تعاون حاصل کررہے ہیں۔
مغربی ایشیا کے وسائل سے مالامال ممالک عالمی توجہ کامرکز ہیں تو اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ یہ خطہ دنیا کی بڑی حریص طاقتور کے درمیان بالادستی کا میدان جنگ بناہوا ہے۔یہ صورت حال قابل فخر بھی ہے توان کو خوف زدہ بھی کرتی ہے۔ امریکہ نے اس خطے کے ملکوں میں اپنی بالادستی قائم کررکھی ہے۔ اب تک وہ ان کی ضروریات پورا کررہاتھا اور ان علاقوں کی ضروریات کو فراہم کررہا تھا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کی گہرائی اور گیرائی پر ہرکسی کی نظر ہے۔ امریکہ مغربی ایشیا اور سعودی عرب کے وسائل سے بہرہ مند ہوتا رہا ہے اور اس کے بدلے میں سعودی عرب کی دفاعی ضروریات بھی پوری کرتا رہا ہے۔یہاں یہ کہنا غیرمناسب نہیں ہوگا کہ سعودی عرب اپنے تحفظ کے لیے کافی حد تک امریکہ پر منحصر رہاہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل غلط نہیں ہے کہ عرب ملکوں بطور خاص سعودی عرب میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں ان مغربی طاقتوں کا بھی رول ہے۔ اسرائیل کی بڑھتی طاقت نے پورے خطے کو ایک آتش فشاں میں تبدیل کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کو چارہ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے، فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو بہانہ بناکر اسرائیل کو جدید اسلحہ سے لیس کیاجاتاہے، اس کو ہرمیدان میں،ہر فورم پر طاقت اور وسائل سے آراستہ کیاجارہاہے، اسرائیل آس پاس کے تمام ممالک کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ فلسطینیوں پر مظالم،، لبنان کی سرحد میں بار بار مداخلت، شام کی گولان کی پہاڑیوں پراستبداد اور مسلسل قبضہ، اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیل کے قیام کا اہم مقصد اس پورے خطے میں عدم تحفظ کااحساس برقرار رکھتا ہے۔
امریکہ مغربی ایشیا، افریقہ میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے رتبہ اوردخل پرتشویش ظاہرکرتا رہاہے۔ سعودی عرب اورایران کے درمیان مصالحت کرکے چین نے اپنی نیک نامی کمالی ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ سال دسمبر میں سعودی عرب کا دورہ کیاتھا اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی کانفرنس میں چین نے سعودی عرب میں دس بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیاتھا۔ چین کو نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے میں کافی مہارت حاصل ہے۔2019میں چین نے اعلان کیا تھا کہ وہ مختلف ممالک میں کم ازکم 30نیوکلیئر پاورپلانٹ تعمیر کرسکتا ہے۔خیال رہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار پرزیادہ انحصار کرنے کی بجائے بالکل منفرد اور جدید انداز میں اپنی ضروریات پوری کرنے کا منصوبہ بنارہاہے اور متبادل توانائی کے لیے اس نے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر پر غور کرناشروع کیاہے۔ مگرمغرب اورامریکہ اس کی دفاعی اور توانائی ضروریات کو پورا کرنے کوتوکیا ان کو سمجھنے سے بھی قاصرہیں۔n