کیا متبادل اقتصادی نظام قائم کیا جاسکے گا

0

جنوبی افریقہ کی راجدھانی جوہانسبرگ میں ہوئے برکس سربراہ اجلاس میں مغربی یوروپی ممالک کی سیاسی، اقتصادی بالادستی کو چیلنج کرنے کی صداسنائی دی۔ اگرچہ برکس صرف پانچ ممالک کا گروپ ہے اور یہ بھی سیاسی، اقتصادی اورکسی دوسرے زاویہ سے مربوط نہیں ہیں۔مگر جس طرح دنیا میں اس گروپ میں بڑی معیشتیں اور منفرد نقطہ نظر رکھنے والے ممالک شامل ہیں،اسی طرح منفرد حکمت عملی اور مغرب سے جداگانہ سوچ رکھنے والے ممالک کے شامل ہونے کے لیے دلچسپی دکھائی جارہی ہے۔
وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے امید کی کرن ہے۔ برکس میں شامل ہونے کئی خواہش مند ممالک میں زیادہ تر وہ ہیں جو امریکہ اور یوروپ کے جانبدارانہ نظام سے متاثر ہیں۔ ان ممالک کو لگتاہے کہ امریکہ اورمغرب سے الگ ہٹ کر کوئی منفرد راہ اختیار کی جائے جو ان کی اقتصادی ترقی، سیاسی آزادی کااحترام کرنے والی ہو اور بین الاقوامی اسٹیج پر ان مالدار ممالک کی اجارہ داری کو موثر انداز میں چیلنج دے سکے۔ سعودی عرب نے ایشیا میں ایتھوپیا نے افریقہ اور جنوبی افریقہ میں ارجینٹیا نے مغرب کوچیلنج کرنے کی جرأت کی ہے۔
دنیا کی ایک چوتھائی دولت والے پانچ برکس ممالک نے اپنے دورے کو وسیع کرتے ہوئے مغربی ایشیا کی بڑی طاقتوں سعودی عرب، یواے ای، مصر کو گروپ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ توسیع کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیاگیاہے جب پوری دنیا میں سیاسی اور اقتصادی نظام کو یک قطبی سے بدل کر کثیرقطبی کرنے کی بات ہورہی ہے۔ روس اور چین نے مغرب کے غلبہ والے نظام کو بدلنے اور اس کی مونوپولی کو ختم کرنے کا تہیہ کیاہواہے۔ ایک طرف روس نے یوکرین میں فوج کشی کرکے ناکوںچنے چبوا دیے ہیں تو دوسری طرف چین مغربی ایشیا اور افریقہ میں اپنی پہنچ کو مضبوط کررہاہے۔ سعودی عرب اورایران کے درمیان مصالحت کراکے اس نے عالم اسلام کو متحد کرنے اوراختلافات کو ختم کرنے کا راستہ دکھایا ہے تو دوسری طرف افریقہ میں چین نے اقتصادی شراکت اور روس نے فوجی شراکت داری بڑھاکر امریکہ، فرانس، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کو زبردست چیلنج دیا ہے۔ لیبیا، تیونس اورالجیریا جیسے افریقی ملکوں کی طاقت اور حوصلہ بڑھایاہے۔ جنوبی افریقہ کے اجلاس میں جن ملکوںکو برکس میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیاگیا ہے، وہ سعودی عرب، ایران، ایتھوپیا، مصر ، اجنٹینااور متحدہ عرب امارات ہیں۔ ان ممالک میں ایک آدھ کو چھوڑکرسب ممالک مغرب کے منظورنظرنہیں ہیں۔ برکس کے موجودہ پانچ ممالک کے ساتھ نئے 6 ممالک کی شمولیت سے یہ گروپ دنیا بھر میں ایک اور مزید بڑی طاقت بن جائے گا اور مغربی ایشیا، شمالی امریکہ میں اس گروپ کی توسیع بڑے پیمانے پر اقتصادی اور جیوپولیٹیکل صورت حال کو متاثر کرے گی۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے کہاہے کہ یہ توسیع ان ممالک میں آپسی تعاون میں نئی روح پھونک دے گی۔ تعاون اور اتحاد میں استحکام آئے گا۔
مغربی ایشیا کے حالات پرنظررکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ ایتھوپیا کا شمار ان ممالک میں ہوتاہے جو افریقہ خاص طورپر قرن افریقہ(Horn of Africa)ہیں۔امریکہ اوربرطانیہ کے استبدادی ہتھ کنڈوں کو ناکام بنانے میں سرگرم ہیں۔ ایتھوپیا کو ایک بار پھر توڑنے اور عیسائیوں کو شمالی حصوںمیں زیادہ بااختیار بنانے کی کوشش کے خلاف مزاحمت کررہاہے۔ ایتھوپیا کے صدر ابی احمد نے اپنے ملک میں مختلف متصادم اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے گروپوں سے مصالحت کرنے اور ان کے ہتھیار اور دیگر حربی سامان ضبط کرنے کی کوشش میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ابی احمد نے برکس میں شمولیت کے دعوت نامہ پر اپنی خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ بہت بڑالمحہ ہے، ان کا ملک عالمی نظام میں سب کو شریک کرنے اور ترقی کرنے کی پالیسی میں تعاون کے لیے تیارہے۔
ذرائع کے مطابق برکس کے جنوبی افریقہ میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں سب سے اہم ایشو گروپ کے ممبران کی تعداد میںاضافہ پرتھا۔ تمام ممبرممالک چاہتے تھے کہ برکس کے دائرئہ اثر میں توسیع ہو مگر توسیع کس طرح ہو اور کس رفتار سے ہو، یہی سب سے اہم اورزیر بحث آنے والا ایشو تھا۔ برکس کے مقاصد کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ دنیا کے ہر خطے کے چالیس سے بھی زیادہ ممالک نے برکس میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی ہے، جن میں سے 22ممالک نے باقاعدہ گروپ میں شمولیت کے لیے درخواست دی ہے۔ درخواست دہندگان میں ایسے ممالک ہیں جو عالمی سیاست اورمعیشت میں اہم رول ادا کرناچاہتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ موجودہ نظام جن خرابیوں سے بھراہوا ہے، اس میں تبدیلی آئے۔ جواس نظام سے ایک خاص گروپ کے ممالک اور نظریات کے اقوام کو ہی فائدہ پہنچارہاہے۔ یہی شکایت ہے جو مختلف براعظموں کے ممالک کو ایک کرتی ہے اور وہ ان شکایات اورناانصافیوں کا ازالہ کرنے کے لیے برکس کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ برکس کے پانچ ممالک دنیا کی 40فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے اور ان ممالک کی مجموعی جی ڈی پی عالمی جی ڈی پی کا ایک تہائی ہے۔ یہ گروپ سیاسی پہلوؤں کے ساتھ اقتصادی پہلوؤں پرتوجہ مرکوز کررہاہے اور اقتصادی میدان میں ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کرنے والی حکمت عملی پرتوجہ مرکوز کررہاہے۔ جنوبی افریقہ میں ہونے والے اس اجلاس میں قرارداد پاس کرکے ایک اجتماعی کرنسی کے تصور پرغور کرنے اور اس کے امکانات تلاش کرنے پربھی غورہوا۔
اس وقت عالمی سطح پر ڈالر واحدکرنسی ہے جو سب سے زیادہ مقبول ہے اور دنیا کے ہرخطے میں ڈالر کو قبول کیاجاتا ہے اور کچھ ممالک ہی ہیں جو ڈالر کے علاوہ کسی دوسری کرنسی کو قبول کرکے اس میں لین دین کرسکتے ہیں۔
گلوبلائزیشن کی وجہ سے حالات میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک اس تبدیلی کی رفتار سست اور دائرہ کو اپنی مرضی اور اپنے فائدے کے حساب سے بڑھانا اورگھٹانا اور اس کا رخ موڑنا چاہتے ہیں مگر اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پچھلی صدی کے مقابلے میں اس صدی میں یہ کنٹرول مغرب کی گرفت سے کم ہوتا جارہاہے۔ ترقی پسند ممالک علاقائی سطح پرتبدیلیاں کررہے ہیں اور مقامی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے مغربی ممالک کے کنٹرول کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چین کئی ملکوں کے ساتھ اس کرنسی میں تجارت اورلین دین کررہاہے۔ مگر یہ لین دین آپسی تجارت میں ہی ممکن ہے۔ مثلاً جنوبی افریقہ جو کہ دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے اگرچین سے کاروبار کرتا ہے تو درست ہے چین کی کرنسی میں کاروبار کرسکتاہے مگر جنوبی افریقہ کے مغربی ممالک اور امریکہ وغیرہ سے بھی بڑے مضبوط تجارتی رشتے ہیں، وہ اپنی کرنسی میں ان مغربی ممالک سے کاروبار نہیں کرسکتا ہے۔ اس کو اس لیے ڈالر کا ہی سہارا لیناپڑے گا۔ ابھی یہ صورت حال پیش نہیں آئی کہ کوئی بھی ملک ڈالر کو نظرانداز کردے اور آئندہ ایک دہائی تک اس صورت حال میں تبدیلی کا امکان مفقود ہے۔ کئی حلقوں میں یورو کی مثال دی جاتی ہے مگر یوروکی طرح کرنسی گردش کراتے ہیں۔ یوروپی ملکوں کی طرح ایک مربوط تجارتی، صنعتی نظام وضع کرناپڑے گا۔ لیکن یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یوروپ یا یورو نے کبھی بھی ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ڈالر کے ساتھ مل کر اپنے آپ کو مضبوط کیاہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS