دوبیگمات کی ضد میں پھنسا بنگلہ دیش

0
بنگلہ دیش میں کیوں مچی ہے اتھل پتھل؟

مملکت خداداد پاکستان 1971میں دولخت ہوگیا اور مشرقی حصے میں بنگلہ بولنے والے افراد کی ایک نئی ریاست مورد وجود میں آئی جسے ’بنگلہ دیش‘ کا نام دیاگیا۔ 2009سے بنگلہ دیش میں ایک ہی پارٹی کی حکومت برسراقتدارہے۔ 2009میں عام انتخابات میں شیخ حسینہ واجد الیکشن جیت کر برسراقتدارآئی تھی، ان کی پارٹی اور جماعت اسلامی میں پرانی رقابتیں ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو دوحصوںمیں تقسیم کرنے کے خلاف تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ مشرقی پاکستان الگ ہوکر الگ ملک بنے۔ یہی وہ بنیادی اختلاف ہے جو آج بنگلہ دیش کی دواہم لیڈروںخالدضیا اور وزیراعظم حسینہ واجد کے درمیان ایک ایسی دیوار کھینچ چکاہے جو ملک کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر رہا ہے۔ 2013میں بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ نے ایک غیرمعمولی فیصلے میں بنگلہ دیش کا انتخابی نظام بدل دیاتھا، بنگلہ دیش میںعام انتخابات آزاد اورغیرجانب دار انتظامیہ کی نگرانی میں کرائے جانے کا التزام تھامگراس غیرمعمولی فیصلے میں عدالت نے فیصلہ صادر کیا کہ غیرجانب دار اور عارضی حکومت یا انتظامیہ کی نگرانی میں انتخابات کرایاجانا منتخب حکومت میں عدم اعتماد ظاہرکرتاہے۔ عدالت کا یہ کہناتھا کہ چونکہ رخصت پذیر حکومت یا انتظامیہ اس سے پہلے کے انتخابات میں منتخب ہوکر آتی تھی لہٰذا انتخابات اسی منتخب انتظامیہ کی نگرانی میں کرائے جائیں تو بہتر ہوگا۔ یہ فیصلہ بنگلہ دیش کے حالیہ تنازع کی اساس ہے۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کے پرانے قومی لیڈروں کی رشتہ دارہیں۔ یہ دونوں خاتون لیڈران کے درمیان کی خاندانی رنجش، سیاسی مخاصمت اور موجودہ مفادات کے ٹکراؤ نے ملک کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑاکیاہے، جہاں ایسا لگتا ہے کہ خانہ جنگی کی صورت حال نہ پیش آجائے۔ خالدہ ضیاء کو اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ آئین کے پرانے التزام کو نظرانداز کرتے ہوئے نیا نظام قائم کیاگیا، جس میں انتخابات کے دوران کرپشن، دھاندلی اور تشدد کے امکانات زیادہ ہیں۔ پہلے الیکشن میں یعنی 2014میں ہونے والے الیکشن میں خالدہ ضیاء نے حسینہ واجد کا اوران کی پارٹی کا کھل کر مقابلہ کیا مگر اقتدارمیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ پست ہوگئیں۔ بعدمیں 2018میں خالدہ ضیاء نے صرف اس خیال سے ایسے انتخابات میں شمولیت کا کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا انھوںنے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ لگاتارتیسری مرتبہ اقتدار میں آنے سے حسینہ واجد کو بنگلہ دیش میں ایک منتخب ڈکٹیٹرشپ قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ 2009تک بنگلہ دیش کو ایک غیرجانبدار جمہوریت کا شرف حاصل تھا، اس کے جمہوری نظام کی تعریف کی جاتی تھی مگر سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے کی آڑ میں حسینہ واجد نے سیاسی میدان میں اپنی مونوپولی اس قدرشدید بنالی ہے کہ اب اس سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل سا نظرآتاہے۔ کمزورمعیشت کی وجہ سے بنگلہ دیش پر مغربی اداروں،ممالک اور اقوام متحدہ کی خاص نظر رہتی ہے۔بنگلہ دیش کی شہرت قدرتی آفات کی وجہ سے تھی، جس کو ختم کرنے اور انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے دنیا بھر سے امداد ملتی تھی ۔اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ حکومت نے سیاسی رقابتوں کی غیرموجودگی میں اپنی معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں اپنی تمام تر توجہ مرکوز کردی تھی اور ہرسال اور آئے دن ہونے والے سیلاب، طوفان وغیرہ سے نمٹنے کے لیے اپنے ادارے اور ایجنسیاں مضبوط کرلیے تھے اس کی بدولت کئی ممالک نے بنگلہ دیش کی معیشت کو بہتربنانے میں تعاون کیا اور ایک زمانے میں اپنی غیرمعمولی باریک ململ کے لیے مشہور ڈھاکہ آج کافی حد تک ریڈی میڈگارمنٹس کا بڑامرکز بن گیاہے۔ اس کے علاوہ بھی بنگلہ دیش نے کئی میدانوں میں معیشت کو مضبوط کیا اور اس کا مقابلہ ہندوستان اورسری لنکا وغیرہ سے کیاجانے لگا۔ مگر آج کے حالات میں یہی سیاسی استحکام بنگلہ دیش کے لیے عدم استحکام کا سبب بن گیا۔ شیخ حسینہ واجد پراپنے سیاسی حریفوں کو ٹھکانے لگانے کے الزامات لگنے لگے ہیں۔ اب الیکشن بہت دور نہیں ہے۔2024کے اوائل میں عام انتخابات متوقع ہیں مگرشیخ حسینہ واجد جس طریقے سے اقتدارپر اپنی گرفت بنائے ہوئے ہیں ایسا نہیں لگتا کہ وہ موجودہ نظام کے چلتے اقتدار سے محروم ہوجائیں گی۔ یا کوئی دوسری سیاسی جماعت اقتدارمیں آجائے گی۔
حسینہ واجد جن کی عمر 70سال ہے۔ گزشتہ 30 سال سے بنگلہ دیش کے سیاسی ماحول پر چھائی ہوئی ہیں۔ ان کی حریف خالدہ ضیاء پہلی مرتبہ 1951میں وزیراعظم بنی تھیں۔ اس کے بعد سے اقتداران دونوں بیگمات میں ہی منتقل ہوتارہا۔ حسینہ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں۔ 1971 میں شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں ہی بنگلہ دیش آزاد ہوا تھا مگر 1975میں فوجی انقلاب میں ان کی اوران کے بیشتر اہل خانہ کو موت ہوگئی تھی۔ حسینہ جو اس وقت غیرملک میں تھیں، ان کی جان بچ گئی تھی۔ اگرچہ بنگلہ دیش کی پوری سیاست فوج اور ان ہی دوخاندانوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ خالدہ ضیاء کے شوہر ضیاء الرحمن فوجی افسر تھے اور شیخ مجیب الرحمن کواقتدار سے بے دخل کرکے فوجی حکمراں بنے تھے۔ بعد میں ان کو بھی ہلاک کردیاگیاتھا۔ ان ہی دونوں لیڈروں کے خاندانوں اور ورثا کے درمیان اقتدار کی کشمکش بنگلہ دیش کی سیاست کی اساس ہے۔ خالدہ ضیاء کو شاید آج اس بات کا احساس ہوگا کہ اگرچہ 2014میں وہ الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتیں تو ان کو آج اتنی شدید محنت نہیں کرنی پڑتی۔ 2014 میں سیاسی منظرنامے سے بے دخلی کے بعد جب 2018 میں انتخابات قریب آرہے تھے تو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ان پر ایک یتیم خانے کی رقم میں خردبرد کرنے کے الزام میں مجرم قراردے دیاتھا۔ خالدہ ضیاء کے ساتھ ان کے بیٹے کو بھی سزا ہوگئی تھی، جس کے بعد گویا حسینہ واجد کوچیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حکمراں رہتے ہوئے شیخ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی سے وابستہ بڑے لیڈروں کو تختہ دار پرلٹکا دیا۔ ان پرالزام تھا کہ انھوںنے 1971میں بنگلہ دیش کے قیام کی جدوجہد میں شیخ مجیب الرحمن کا ساتھ نہیں دیا تھا اور پاکستانی فوج اورحکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے آزاد بنگلہ دیش کی تحریک کو نقصان پہنچایاتھا۔ اس جماعت پر یہ بھی الزامات تھے کہ انھوںنے بڑے پیمانے پر خون خرابے کیے اوریہاں تک کہ خواتین کی بے حرمتی بھی کی۔
بنگلہ دیش کا سیاسی درجۂ حرارت ان ہی مذکورہ بالا وجوہات سے اتنابڑھ گیاہے کہ آج ایسا نہیں لگتا کہ 2024 کا الیکشن آزادانہ ہوپائے گا۔ عالمی ادارے مسلسل حسینہ واجد پرزورڈالتے رہے ہیں کہ وہ انتخابات کے پرانے قوانین کے تحت ایک غیرجانب دار انتظامیہ کو اقتدار سونپ دیں تاکہ انتخابات کی جانب داری کے امکانات کو ختم کیاجاسکے۔ شیخ حسینہ انتہائی آمرانہ انداز میں ان مطالبات کو رد کرتی رہی ہیں۔ اس وقت پورے بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام ہے، مختلف مقامات پرپرتشددمظاہرے ہورہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کا مطالبہ ہے کہ فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوں اور غیرجانبدار انتظامیہ ان انتخابات کا انتظام کرے۔ اصل میں خالدہ ضیاء کے خاندان کا کافی اثر و رسوخ بنگلہ دیش کی فوج پر ہے۔ وہ اس طرح بنگلہ دیش کی فوج کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر فوج کے سربراہ تھے اوروہاں کی فوج کئی مرتبہ تختہ پلٹ کر اقتدار میں آئی ہے۔ جنرل ارشادکی پارٹی ’جاتیہ پارٹی‘ شیخ حسینہ واجد کے سیاسی محاذ کا اہم حصہ ہے۔ ایسانہیں لگتا کہ فوج خالدہ ضیاء کے اس دام میں آئے گی۔مگر خالدہ ضیاء کے مطالبات غیرمناسب نہیں ہیں۔ ان کو بین الاقوامی اداروں اورکئی بڑی طاقتوں مثلاًامریکہ اور یوروپی یونین کی حمایت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی اس بابت اپیل آچکی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے سیاسی نظام میں تبدیلی لائیں ورنہ یہ ملک ایک پارٹی جمہوریت میں تبدیل ہوجائے گا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS