پچھلے دنوں ہندوستان کی سیاست میں مفت ریوڑیوں کی بڑا تذکرہ رہا،یہ ایشو ایک اہم سیاسی مسئلہ بن گیا، وزیر اعظم نے سیاسی انتخابی جلسوں میں اس کو اٹھایا اور مرکزی حکومت نے عوام کو مفت میں مراعات دینے کا اعلان کرنے پرناراضگی کا اظہار کیا اور اس کومفت خوری کی عادت ڈالنے والی اسکیمیں قراردیا۔مگر ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے غریب ملک میں جہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ بڑھتاہی جارہا ہے ۔عام آدمی کو حکومت سے کیا توقعات رہتی ہیں،اس کا جائزہ لیاجانا چاہئے۔ ویلفیئر اسٹیٹ کا نظریہ کوئی نیا نہیں ہے اور مغربی ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں اپنی تمام طبقات مثلاً بوڑھوں، معذوروں، بیوائوں وغیرہ کو سہولت فراہم کرنے کیلئے الگ الگ اسکمیں لانچ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں بھی ان اسکیموں کا رواج رہاہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔جنوبی ہندوستان کے ریاستوں بطور خاص تامل ناڈ وکیرالہ وغیرہ میں ریاستی سرکاریں اپنی ووٹرس کو خوش کرنے کیلئے بھی ان اسکیموں کا استعمال کرتی ہیں۔خاص کر تامل ناڈومیں مختلف سیاسی پارٹیاں مفت اسکیموں کا اعلان کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔تامل ناڈو کی مرحوم وزیراعلیٰ جے جے للتا ،کرونا ندھی وغیرہ اس اس معامہ میں کافی سرخیوں میں رہتے تھے۔ اس طرح کی اسکیموں کو فروغ دینے میں عام آدمی پارٹی نے ریکارڈ بنا ئے اور دہلی جیسے شہر جو ملک کی راجدھانی بھی ہے وہاں پر تمام طبقات کو بجلی ،پانی مفت فراہم کرنے کا اعلان کیاگیا تو عام اْدمی پارٹی کو اس کے خاطرخواہ نتائج دیکھنے کو ملے۔عام آدمی پارٹی نے دہلی میں جس طریقے سے اپنی جگہ بنائی وہ دیگر روایتی سیاسی پارٹیوں کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گئی۔ کانگریس اور بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کی ان اسکیموں کی مخالفت کی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف ریاستوں میں ان اسکیموں کا عام آدمی پر خاصا اثر ہوتاہے۔ پنجاب میں بھی عام آدمی پارٹی نے اسی طرز کی اسکیموں کا اعلان کیا۔عام آدمی پارٹی نے مختلف عمر کے ووٹروں کو ٹارگیٹ کرنے کے لئے الگ الگ حکمت عملی اختیار کی۔ پنجاب میں بھگونت مان کی قیادت والی پنجاب کی عام آدمی پارٹی نے خواتین کے لئے ہرماہ نقد رقم دینے کا اعلان کیاتھا۔ یہ اعلان دہلی میں عورتوں کو ٹرانسپورٹ محکمہ کی بسوں میں مفت سفر کی اسکیم کی طرز پر تھا اور اس اسکیم کے ذریعہ عام آدمی عورتوں کا دل اور مومنٹ جیسا چاہتی تھی۔ عام آدمی پارٹی مختلف ریاستوں میں سرکاری اسکولوں میں بہتر اور مفت تعلیم کو اپنا انتخابی منشور میں شامل کرتی رہی ہے۔مگر تامل ناڈو میں جہاں پر مڈ ڈے اسکیم کافی حد تک کامیاب تھی، اب مفت ناشتہ اسکیم چلائی گئی ہے۔ خیال رہے کہ ملک بھر میں مڈ ڈے میل کی اسکیم میں کافی کامیابی حاصل کی تھی اور سماج کے غریب اور مستحق طبقات نے اس کا فائدہ اٹھایا تھا۔شروعاتی دنوں میں اسکولوں میں مڈ ڈے میل کی وجہ سے طلبا کی حاضری بڑھی تھی۔تامل ناڈو میں ڈی ایم کے کے کی پارٹی نے ناشتہ اسکیم شروع کرکے پالیسی سازوں کو چونکا دیا ہے۔ امید کی جارہی تھی کہ اس اسکیم کے نفاذ سے طلبا کی تعداد بڑھے گی اورطلبا کی تعداد میںکافی اضافہ دیکھا گیا۔ایک اندازہ کے مطابق اس اسکیم کا فائدہ اکیلے تامل ناڈو میں ایک کروڑ 14 لاکھ طلبا کو پہنچ رہاہے۔یہ طلبا پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے ہیں۔پرائمری اسکولوں نافذ ہونے والی اس اسکیم میں ایک طالب علم کے ناشتے پر پونے تیرہ روپے خرچ ہورہے ہیں۔ تامل ناڈو کے دراوڑسیاست دانوں کا کہناہے کہ اس اسکیم کا براہ راست فائدہ سماج کے غریب ترین پسماندہ اور سماجی طور پر حاشیہ پر زندگی بسرکرنے والے طلبا کو ہواہے۔ درواڑ تحریک سے وابستہ سیاست دانوں کاکہناہے کہ اس طریقے سے سماجی انصاف کی اصولوں کو نافذکیاجاسکے گا۔تامل ناڈومیں مڈڈے میل سب سے پہلے 1980 کی دہائی میں سابق وزیراعلیٰ اور اداکار این جی راما چندرن نے شروع کرائی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت یہ اسکیم سماج کے تمام طبقات کے لئے تھیں۔پچھلے دنوں کووڈ 19-کے دور میں دیکھا گیا بدترین حالات میں کس طریقے سے اس طرح کی اسکیموں کے ذریعہ سماج کے تمام طبقات کو براہ راست اور فوری مدد فراہم کرائی جاسکتی ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب پورا سماجی ،انتظامی ڈھانچہ منہدم ہوگیاتھا۔تامل ناڈو میں جو تجربہ کیاگیاہے اس کے پیچھے ایک سروے کی رپورٹ تھی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اسکول کو جانے والی طلبا کی 25فیصد تعداد بغیر ناشتے کے ہی اسکول جاتی ہے۔یہ بات سمجھنے والی ہے کہ خالی پیٹ کوئی بھی بچہ پڑھائی پرتوجہ نہیں دے سکتا ہے۔ ایسے حالات میں اس اسکیم کا نفاذ چھوٹے بچوں اور غریب خاندانوں کے لئے بڑی نعمت بن کر سامنے آیا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں پرتعلیم پرکم توجہ دی جاتی ہے اور بجٹ میں مختص رقم کے معاملہ میں نظر انداز کیاجاتاہے ایسے ماحول میں اس قسم اقدام بڑی نعمت ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں تعلیم پرجی ڈی پی کا6فیصد حصہ خرچ ہوناچاہئے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ رقم محض 3فیصدہے ۔حال ہی میں تامل ناڈو کے ناشتہ مہم کے جواعداد وشمار سامنے آئے ہیں ان میں پرائمری اسکولوں میں بچوں کی حاضری میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔فی الحال تامل ناڈو میں اس اسکیم1.5لاکھ طلبا استفادہ کررہے تھے۔ اب جواعداد وشمارسامنے آئے ہیںان کے مطابق اس جون تک 17لاکھ طلبا کو اس کا فائدہ پہنچا تھا۔
تامل ناڈو کے حالیہ جائزہ میں بتایا گیاہے کہ 1.086اسکولوں میں سے 1.545اسکولوں میں یہ اسکیم نافذ کی گئی تھی۔ ان اسکولوں میں طلبا حاضری کی شرح میں 20فیصد تک کا اضافہ دیکھا گیاتھا۔کئی اضلاع میں 22اسکول ایسے تھے جہاں پرطلبا کی حاضری کی شرح 40فیصد تک بڑھ گئی۔ تامل ناڈو کے وزیرمالیات پلانی ویل تھیاگی راجن نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ ناشتے کی اسکیم دوپہر کے کھانے کی اسکیم سے زیادہ فائدہ پہنچانے والی ہے اور وہ ناشتے میں اوربہتر غذا فراہم کرنے پر غور کررہے ہیں۔ وزیر مالیات کاکہناہے کہ 300سے 400کے درمیان اسکولوں میں طلبا کی حاضری ہیں۔ 10فیصد اضافہ دیکھا گیا۔پچھلے دنوں مدھیہ پردیش میں کانگریس کے لیڈرکمل ناتھ نے سیلنڈر کی قیمت صرف 500 روپے کرنے اور گھرکی مکھیا عورت کو2000روپے گھرکے خرچ کیلئے دینے کا اعلان کیاہے۔
rt
فلاحی اسکیمیں بنام مفت کی ریوڑی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS