پانی – بیداری کی ضرورت

0

شپرا ماتھر

گاؤں، کھیتی، مویشی اور پانی۔ زمین کی سانسیں یہیں بندھی ہیں اور امید کے در یہیں پر کھلے ہوئے ہیں۔ اور یہیں کہیں ہے پانی کے تحفظ کی ہماری روایتی تکنیک کی دولت۔ ریگستان میں جہاں سورج کی چاندنی کی طرح چمکتی کرنیں مٹی کی چادر پر دریا ہونے کا چھلاوا کرتی ہیں، وہیں لاکھوں منتوں کے بعد پورے سال میں دس-بیس سینٹی میٹر بھی برس جائے تو زمین کے حلق میں پانی کی ایک بوند بھی امرت لگتی ہے۔ ملک کے ریگستانوں کا خشک سالی اور نقل مکانی کے سانحات نے کبھی پیچھا نہیں چھوڑا، مگر یہاں کے فولادی ہمت والے لوگوں نے کبھی ہار بھی نہیں مانی۔ یہیں بوائی کی، یہیں جوتا اور یہیں اپنی سوچ اور آباد ہونے کے ایسے نشان چھوڑے، جس کا لوہا آج کی دنیا بھی مانتی ہے۔
مغربی علاقے میں فطرت کی خوبصورتی اور آباواجداد کے تیار کیے گئے آبی ذخائر کے زندہ باقیات دیکھنے ہر سال لاکھوں ملکی وغیرملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جیسلمیر کے کردھنی علاقہ میں پالی سے آکر آباد ہوئے محنت کش لوگوں نے چوراسی گاوؤں کو آباد کیا تھا۔ ریگستان کو ہرابھرا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی انہوں نے اور وہیں سینچائی کے لیے ’کھڑین‘ تیار کیے۔ ’کھڑین‘ یعنی پانی کی اندرونی ترتیب طے کرنے کا نایاب طریقہ، جس سے زمین میں بھرپور نمی رہتی ہے اور جس سے اجتماعی کھیتی بھی ہوتی ہے۔ یعنی پانی صرف کھیتوں کو بچانے کا نہیں، کمیونٹی کو باندھے رکھنے کا بھی ذریعہ تھا۔ اسے تیار کرنے والی اس باوقار قوم نے اس علاقہ سے اپنا ٹھکانہ ہی اٹھا لیا جب ان کی بہو بیٹیوں پر حکمرانوں کی نیت خراب ہونے لگی۔ یہ وہ باب ہیں جو سمجھاتے ہیں کہ راجاؤں کے خادم اور محافظ ثابت نہ ہوپانے کی کمزوری نے کس طرح ہمارے یہاں کی بے مثال پانی اور ماحولیات کی داستانوں کا افسوسنا ک اختتام کیا۔

اب جب آب وہوا کی شدت نے ہمارے ہاتھ پاؤں پھلا رکھے ہیں، حالات بے قابو ہونے سے روکنے کا ایک راستہ تو یہی ہے کہ نہ صرف عادتوں میں سدھار ہو، بلکہ پالیسیاں بنانے والے آبی ورثہ پر غور کرتے ہوئے اداروں اور کمیونٹی کے ذریعہ ہر ایک کو جوڑنے میں مصروف ہوجائیں۔ ’’جل سواؤلمبن‘‘ جیسے منصوبوں نے جو زمینی تبدیلیاں کی ہیں، ان کا کوئی اندازہ حکومت کے پاس خود بھی ہے کہ نہیں، لیکن یہ منصوبے روایتی آبی ذخائرکی صفائی، کھدائی اور کھیتوں کے پانی کو سنبھال کر رکھنے میں انتہائی کارگر رہے ہیں۔

آج ریگستان کے لوگوں کو کھارے پانی کے ساتھ نہروں کا میٹھا پانی بھی نصیب ہے تو یہ جدید دور کی انجینئرنگ کی بدولت ہے۔ مگر آج بھی دوردراز کے گاؤں دھانیوں میں کھڑین بیریاں، جوہڑ، باؤلی، ٹانکے یعنی انسان کے بنائے ہوئے روایتی پانی کے ذخائر ہی ہیں جو زمین کو نم رکھنے کا اپنا فرض نہیں بھولتے، ساتھ ہی فصلوں اور مویشیوں کے رکھوالے بن کر زندگی کی رفتار قائم رکھنے میں آج بھی کھرے ہیں۔ ان میں سے جن جن کو برادریوں نے سنبھال لیا، وہ پھر بھی آج تلاش کرنے سے مل جائیں گے، مگر جنہیں نہ برادریوں نے بچایا نہ ہی حکمرانوںنے جن کی اہمیت سمجھی وہ لاتعداد آج مٹی میں دب چکے اور ایسے علاقوں میں پانی ’پاتال‘ (انتہائی نچلی سطح) تک یعنی ’ڈارک زون‘ میں ہے۔ پنچایتی راج کے تصور میں گرام سوراج شامل تھا۔ اور گرام سوراج میں برادری کی شراکت داری۔ ہر گاؤں کا اپنا وجود، اپنی پہچان، اپنی معیشت، اپنی صنعتیں اور اپنے پر انحصار۔ قدرتی وسائل کو سنبھال کر رکھنا اسی کا حصہ تھا۔ جس برادری نے سمجھا، وسائل کو شیئر کیا، اس کا فطرت سے رشتہ جڑا رہا اور جنہوں نے بے قدری کی انہیں اب نئے سرے سے سیکھنا ہی ہوگا۔
کسی وقت سرسوتی ندی جیسلمیر سے ہوکر گزرتی تھی اور بحیرۂ ارب سے ملتی تھی۔ ندی سوکھنے پر یہاں ریگستان بن گیا اور پھر جب اندراگاندھی کینال کی سوغات ملی تو راحت آئی۔ حالاں کہ نہر نے بھی ایسا قہر ڈھایا ہے کہ کھارے سے چھٹکارے کی خیر مناتے ہوئے میٹھے پانی میں گھلی بیماریوں کو آنکھ بند کرکے پی جانے کے سوائے کوئی متبادل نہیں ہے۔سیڑھیوں والے کنویں یعنی اسٹیپ ویل اور گھروں، مندروں، برادریوں کے مقامات پر بنے ٹانکوں اور تالابوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ ان کا رکھ رکھاؤ کمیونٹی مشترکہ ذمہ داری سمجھ کر کرتی رہی ہے۔ ان کا اس پانی پر انحصار ہے اس لیے بھی ان کی ان ڈھانچوں سے انسیت بھی ہے۔ اس طرح کا اپناپن باندھ، نہر یا پائپ لائنوں سے کبھی نہیں محسوس ہوپاتا۔ ان بڑے منصوبوں کی دیکھ بھال حکومت-انتظامیہ کرتاہے اور ان کا عوام سے ناطہ ڈونر اور سالیسٹر کا بن کر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر نہروں میں مردہ مویشی بہتے ہیں، گندے نالے کھلتے ہیں اور کیمیائی کوڑا گھلتا ہے تو کون سی کمیونٹی بولے گی، کون سنوائی کرے گا؟
امریکی اسپیس ایجنسی ’ناسا‘ نے دوسا ضلع کے آبھانیری کی بے حد خوبصورت ’چاند باوڑی‘ کو اپنے چہیتے ’اسٹارٹاک پروجیکٹ‘ کا حصہ بنایا، مگر راجستھان کے کئی سوکھے اور ریگستانی علاقوں میں آبی ذخیرے کی ایسی متعدد مثالیں ہیں جن تک بھلے ’ناسا‘ کی دوربین نہ پہنچے، پالیسی بنانے اور نافذ کرنے والوں کی نگاہ تو پہنچنی ہی چاہیے۔ اقوام متحدہ نے 9سال پہلے ہی پینے کے صاف پانی کو بے حد ضرور انسانی حقوق تسلیم کرلیا تھا۔ اب نیتی آیوگ بھی بتارہا ہے کہ آج تقریباً آدھا ہندوستان سنگین پانی کے بحران کی زد میں ہے، یعنی تقریباً 60کروڑ لوگوں پر بحران ہے اور ہر سال صاف پانی نہ ملنے سے تقریباً 2لاکھ لوگ موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ نیتی آیوگ کا ’واٹر مینجمنٹ انڈیکس2018‘ اشارہ کرتا ہے کہ 2020تک ہندوستان کے 21شہروں کا رحم پوری طرح خشک ہوجائے گا۔ اس سے 10کروڑ لوگوں پر راست اثر پڑے گا۔
پالیسیوں کے آئینہ سے ایشوز کی تہہ میں جھانکا جائے تو ’جل-شکتی‘ کی وزارت نے ہدف رکھا ہے کہ 2024تک ہر گھر تک صاف پانی پہنچے گا اور پانی کے وسائل کا مینجمنٹ کیا جائے گا۔ مرکزی بجٹ میں بتایا گیا کہ ’جل-شکتی ابھیان‘ میں 256اضلاع کے 1539ڈویژن میں پانی کے تحفظ، بارش کے پانی کا اسٹوریج، روایتی آبی ذخائر کی تجدیدکاری، پانی کے دوبارہ استعمال اور پینے کے پانی کی صفائی پر توجہ رہے گی۔ بجٹ تقریر میں عادتیں بدلنے کی بات بھی کہی تھی تو پھر سے گاؤوں کا طرززندگی اور وسائل کے سمجھ داری سے استعمال کو اپنانا ہی ہوگا۔ روایتی معلومات اور تکنیک کو پڑھنا اور ٹنا ہی نہیں ہوگا اس کے جیتے جاگتے حصے تیار کرنے ہوں گے۔ عوامی بیداری کے لیے ان کہانیوں کو کہنا ہوگا جو سچی ہیں اور پوری دنیا کے لیے بنائے گئے پائیدار ترقی کے اہداف کی پگڈنڈیاں ہیں۔ کھاٹ پر بیٹھ کر نہانا اور اس چوتھائی بالٹی پانی کو کھاٹ کے نیچے رکھے تسلے میں بچا کر پھر سے استعمال میں لانا، رام جھارے سے اوک لگاکر پانی پینا، کم پانی والی فصلیں بونا، پتوں، دونوں، شکوروں میں دعوت کھانا، ٹانکے میں اکٹھا برساتی پانی کو عبادت کی جگہ کی طرح پاک صاف رکھنا یا مویشیوں کے چارے اور پانی کے لیے کھیلی بنوانا-یہ سب روزمرہ کی زندگی اور گاؤں-شہر کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔
اب جب آب وہوا کی شدت نے ہمارے ہاتھ پاؤں پھلا رکھے ہیں، حالات بے قابو ہونے سے روکنے کا ایک راستہ تو یہی ہے کہ نہ صرف عادتوں میں سدھار ہو، بلکہ پالیسیاں بنانے والے آبی ورثہ پر غور کرتے ہوئے اداروں اور کمیونٹی کے ذریعہ ہر ایک کو جوڑنے میں مصروف ہوجائیں۔ ’’جل سواؤلمبن‘‘(water self-reliance) جیسے منصوبوں نے جو زمینی تبدیلیاں کی ہیں، ان کا کوئی اندازہ حکومت کے پاس خود بھی ہے کہ نہیں، لیکن یہ منصوبے روایتی آبی ذخائرکی صفائی، کھدائی اور کھیتوں کے پانی کو سنبھال کر رکھنے میں انتہائی کارگر رہے ہیں۔ آبی قانون کا خاکہ بھی کچھ ریاستوں میں تیار نظر آرہا تھا، جہاں پانی کی بربادی پر جرمانہ کا التزام ہونا تھا، لیکن پانی سنبھالنے سے متعلق سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ پانی کی آمد اور قدرتی راستہ میں تو رسوخ داروں کی زمین جائیدار ہیں۔ ایسے میں بے دلی سے بنی پالیسیاں زمین پر اُترپائیں گی، اس میں شبہ ہی ہے۔ آخرکار پانی کی جوابدہی کا سارا دارومدار عام عوام پر ہی آنا ہے، جس کی تیاری میں شہری معاشرہ سے امیدیں وابستہ رہیں گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS