اب اسکول کھول دینا چاہیے

0

محمد فاروق اعظمی

دنیا بھر کی معیشت اور صحت کے بعد اگر کوئی شعبہ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تووہ تعلیم کا شعبہ ہے۔اس موذی وباکے خوف سے گزشتہ ڈیڑھ برسوں سے تمام اسکول بند ہیں اور اس کا اثر ملک کے کروڑوں طلبا و طالبات پرپڑرہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس نقصان کے ازالہ کیلئے آن لائن کلاسیز چلائی جارہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آن لائن کلاسیز کی حیثیت ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ وبا کے آغاز سے ہی جب اسکول کالج بند کیے گئے تو آن لائن تعلیم کامتبادل پیش کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ہم کسی بھی حال میں بچوں کی تعلیم کا نقصان نہیں ہونے دیں گے اور خو ب بغلیں بجائی گئی تھیں لیکن ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد جب بچوں کی تعلیم کا جائزہ لیاجارہاہے تو جو حقیقی صورتحال سامنے آرہی ہے، وہ انتہائی پریشان کن ہے۔
عالمی ادار ہ ہیومن رائٹس واچ نے اپریل 2020 اور اپریل 2021 کے درمیان 60 ممالک کے طلبا، اساتذہ اور ا ن کے سرپرست حضرات سے انٹرویو کے بعد جو نتائج پیش کیے ہیں وہ دنیا بھر کے بچوں کی تعلیمی ابتری کا آئینہ ہیں۔ادارہ نے اپنی تحقیقات اور سروے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر دنیا کے ہر بچہ کیلئے تعلیم تک رسائی مفت نہیں کی گئی تو یہ عارضی رکاوٹ دائمی بن جائے گی اور کروڑوں بچوں کی تعلیم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ادارہ کے مطابق دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی سمت دہائیوں سے جاری لیکن دھیمی پیش رفت سن 2020 میں اچانک تھم گئی۔کورونا وائرس کے انفیکشن کا پھیلائو روکنے کیلئے اپریل تک دنیا کے 190سے زیادہ ممالک میں140کروڑ بچوں کو پری پرائمری، پرائمری اور سیکنڈری تعلیم سے نکال باہر کردیاگیا۔بعد میں کچھ ممالک میں اسکول دوبارہ کھول دیے گئے چند ممالک میں مخصوص طبقہ کے بچوں کیلئے اسکول کھول دیے گئے لیکن زیادہ تر ممالک میں طلبا کی براہ راست اسکولوں میں واپسی نہیں ہوپائی۔ اسکول بند ہونے کے دوران زیادہ تر ملکوں میںتعلیم آن لائن یا کسی دوسرے ذریعہ سے فراہم کی جارہی ہے لیکن اس طریقہ تعلیم کے کامیاب ہونے اور اس کے معیار میں بہتر بھاری فرق ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی ، کنکٹی ویٹی ، گھر کے حالات سمیت متعدد امور نے آن لائن تعلیم یا فاصلاتی تعلیم کے غیر عملی ہونے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

اب جب کہ ختم ہورہی کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ ہی ممانعت ہٹنے لگی ہے اور بازاروں میں کاروباری سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں، لوگ اپنے روز مرہ کے کام میں مصروف ہوگئے ہیں ، شاپنگ مال، دفتر، ٹرانسپورٹ وغیرہ کھل گئے ہیں ، کل کارخانے اور سرکاری پروجیکٹوں کا کام، ہونے والے شادی بیاہ کی تقریبات بھی ہورہی ہیں تو پھر اسکولوں کو بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ کووڈ کی وجہ سے اسکولوں کے بند ہونے کے باوجود وسائل وذرائع پر قابض ایک محدود طبقہ کیلئے آن لائن تعلیم کی سہولت تو ضرورہے لیکن بچوں کی تین چوتھائی تعداد کے نصیب میں محرومی ہی ہے۔یہ محروم طلبا مایوس ہوچکے ہیں ا ور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم دوبارہ شروع نہیں کرسکیں گے۔جب کہ آن لائن تعلیم کا فیض اٹھانے والے طلبا بھی اپنے تعلیمی نقصان کا برسوں تک ازالہ نہیں کرپائیں گے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسکول جاکرجو پڑھائی کی جاتی ہے اور جو علم حاصل ہوتا ہے آن لائن کلاسز اس کا متبادل نہیں بن پائے ہیں۔ اسکول میں جس طرح سے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، آن لائن کلاسز کے توسط سے ایسی تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔
ہندوستان میں تو یہ صورتحال اور زیادہ بھیانک ہے، طبقاتی اور معاشی فرق کی وجہ سے90فیصد بچے آن لائن کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ مراعا ت یافتہ امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچوں کی محدود تعداد ہی جن کے پاس کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون اورا نٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ تمام سہولیات ہیں، وہی اس سے استفادہ کر پارہی ہے۔ ہندوستان کی اکثریت جو ان سہولیات سے محروم ہے ان کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بالکل ہی معطل ہوچکا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس ہفتہ جاری کیے گئے ڈاٹا کے مطابق ملک میں لاکھوں طلبا کے پاس اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ کی سروس دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ بچے آن لائن پڑھائی نہیں کر پارہے ہیں۔ اس معاملے میں بہار سب سے آگے ہے جہاں ایک کروڑ 40 لاکھ بچے آن لائن کلاس کا فائدہ نہیں اٹھاپارہے ہیں۔اس ڈاٹا کے مطابق مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور جموں و کشمیر میں تقریباً70فیصد طلبا کے پاس اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ دستیاب نہیں ہے۔ وہیں جھارکھنڈ اور کرناٹک میں30لاکھ سے زیادہ طلبا کے پاس آن لائن کلاس کے وسائل نہیں ہیں۔
ایسے میں اب ضرور ت ہے کہ اسکول جلد سے جلد کھولے جائیں۔ یہ درست ہے کہ کورونا انفیکشن سے بچوں کو بچانا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ بچوں کے بہتر مستقبل اور ایک اچھا شہری بننے کیلئے معیاری تعلیم بھی لازم ہے۔ اب جب کہ ختم ہورہی کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ ہی ممانعت ہٹنے لگی ہے اور بازاروں میں کاروباری سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں، لوگ اپنے روزمرہ کے کام میں مصروف ہوگئے ہیں ، شاپنگ مال، دفتر، ٹرانسپورٹ وغیرہ کھل گئے ہیں ، کل کارخانے اور سرکاری پروجیکٹوں کا کام، ہونے والے شادی بیاہ کی تقریبات بھی ہورہی ہیںتو پھر اسکولوں کو بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک جیسے فرانس، سویڈن اور نیدرلینڈ میں تو وبا کی انتہا کے دوران بھی اسکول بند نہیں کیے گئے تھے۔اب جب کہ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ یہ وبا ابھی کئی مہینوں اور کئی برسوں تک رہے گی تو یہ سوچنے والی بات ہے کہ آخرکب تک تعلیمی اداروں کو بند رکھاجائے گا۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ ( آئی سی ایم آر) نے بھی اسکولوں کو کھولنے کی سفارش کی ہے۔ آئی سی ایم آر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بلرام بھارگو کے مطابق چھوٹے بچے وائرس کا آسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں،اس لیے کورونا کی لہر کے دوران یوروپ میں کہیں بھی پرائمری اسکول نہیں بند کیے گئے تھے۔اپنے ملک میں بھی درجہ اول سے پانچویں تک کے چھوٹے بچوں کو پہلے اسکول بلایا جاسکتا ہے۔آئی سی ایم آر کی جانب سے ملک کی21ریاستوں کے70اضلاع میں جون جولائی مہینہ میں کیے جانے والے سیرسروے کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 67 فیصد آبادی میں اینٹی باڈی ڈیولپ ہوچکی ہے۔ یعنی یہ آبادی متاثر ہوچکی ہے اور وائرس کو بے اثر کرنے کیلئے ان لوگوں کے جسم میں ضروری اینٹی باڈی ڈیولپ ہوچکے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔ اس لیے آئی سی ایم آر کا ماننا ہے کہ اسکول کھولے جاسکتے ہیں کیوں کہ چھوٹے بچوں میںبڑوں کے مقابلہ انفیکشن کا خطرہ کم ہے۔ آئی سی ایم آر کی اس رپورٹ کے بعد یقینی طور پر اسکولوں کو کھولنے پر مرکز اور ریاستی حکومتوں کو سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے کیوں کہ پڑھائی بند ہونے سے بچوں کا مستقبل تاریک ہورہاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS