ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت

0

آصف تنویر تیمی

اللہ تعالیٰ نے اپنی غالب حکمت اور مصلحت کے پیش نظر بعض دنوں کو بعض پر،بعض راتوں کو بعض پر،بعض مہینوں کو بعض دوسرے مہینوں پربلکہ چند ساعتوں(گھنٹوں) کو دوسری ساعتوں پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔مثلا جمعہ کے دن کے آخری پہر کو پہلے پہر پر اور رات کے آخری پہر کو رات کے دیگر حصوں پر فضیلت حاصل ہے۔رات کے اسی آخری پہر میں رب کی رحمت نازل ہوتی اور بندے کی فریادیں قبول ہوتی ہیں۔
ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو بھی کتاب وسنت میں بڑا مقام حاصل ہے۔سال کے دوسرے دنوں پر ان دس دنوں کو برتری حاصل ہے۔ان دس دنوں کی قسم اللہ نے قرآن کریم میں کھائی ہے۔اور اللہ تعالی کسی امر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے قسم کھاتا ہے۔ذی الحجہ کے یہ ایام مومنوں کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ایک مسلمان ان دنوں میں اپنے رب کا تقرب حاصل کرنا اور اپنی نیکیوں میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔حدیث کے مطابق ان دس دنوں میں کیا جانا والا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو دوسرے دنوں کے بالمقابل زیادہ پسند ہے۔اس لئے ان دنوں کو غنیمت جانتے ہوئے ہر مسلمان کو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے چاہئے۔
چونکہ ذی الحجہ کا چاندنمودار ہوچکا ہے۔بڑی تعداد میں حجاج سوئے حرم روانہ ہوچکے ہیں اور ہنوز یہ مبارک سلسلہ جاری ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ عشرہ ذی الحجہ میں سب سے اہم عبادت حج کی ادائیگی ہے اور اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہے۔چنانچہ جو مسلمان حج بیت اللہ کی استطاعت رکھتا ہے اسے ضرور یہ سعادت حاصل کرنی چاہئے۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو افضل ترین عمل قرار دیا ہے(صحیح بخاری)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کو جنت میں داخلے کا اہم ذریعہ بھی قرار دیا ہے(صحیح بخاری)۔
جو اس عشرہ ذی الحجہ میں حج کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ اپنے گھر پر رہ کربھی نیک اعمال کے ذریعہ اللہ تعالی کے بے شمار انعامات کا مستحق ہوسکتا ہے،یہاں تک کہ حج کے برابر ثواب حاصل کرسکتا ہے۔
ذیل کے سطور میں چند ان اعمال کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے جنہیں ان دس دنوں میں انجام دیکر ایک مسلمان اپنی دنیا وعاقبت کو سدھار سکتا ہے:
اخلاص: ہر مسلمان کے لئے جملہ عبادات میں اخلاص ونیک نیتی بنیادی شرط ہے۔دکھاوے اور نمود کے لئے مسلمان کو کوئی کام نہیں کرنا چاہئے۔جس کام میں ریاکاری پائی جاتی ہے وہ بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوتا ہے۔اس لئے سب سے قبل ہمیں اپنے دل کی صفائی ستھرائی کی فکر کرنی چاہئے تاکہ اس عشرہ میں کئے جانے والے ہمارے اعمال قبول ہوں۔ایسا نہ ہو کہ ہم محنت بھی کریں اور کوئی اجر بھی نہ ملے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اخلاص کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ابراہیم کے دین پر نماز کو قائم رکھیں اور زکوۃ دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا‘‘۔(البینہ:5)
دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا: ’’جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا(فوری فائدہ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کیلئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیںجہاں وہ برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا‘‘۔(بنی اسرائیل: 18-19)دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنی عبادتوں کے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہئے دکھاوے کی خاطر کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک: ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں ہر مسلمان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔ان کے ساتھ بد سلوکی اور بد تمیزی نہیں کرنی چاہئے۔اللہ کی نگاہ میں توحید کے بعد سب سے اہم کام والدین کی خدمت اور ان کااحترام ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور تیرا پرور دگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے‘‘۔(بنی اسرائیل: 23-24)
عبد اللہ بن مسعود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا”۔(صحیح بخاری)
ایک دوسری مشہور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بدنصیب قرار دیا جو اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی عمر میں پائے اور ان کی خدمت کے ذریعہ جنت حاصل نہ کرے۔(صحیح مسلم) ان حدیثوں کے پیش نظر ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں ہمیں اپنے والدین کے ساتھ خصوصی تعلق اور ان کی خاطر داری کرنی چاہئے۔انہیں ناراض کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔اگر ہمارے ماں باپ زندہ نہیں ہیں تو ایسی صورت میں ہم ان کے لئے دعائے مغفرت،ان کی جانب سے صدقہ وخیرات،ان کے وعدوں کو پورا اور ان کے متعلقین سے اپناپن اور رشتہ قائم رکھیں،یہ چیزیں بھی والدین کے حسن سلوک میں داخل ہیں۔
صلہ رحمی: ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا چاہئے۔اپنے اوپر عائد ان کے حقوق کی ادائیگی کی حتی المقدور جتن کرنی چاہئے۔خواہ مخواہ رشتوں کو منقطع کرنا،رشتہ داروں کو دور کرنا یا انہیں کسی طرح پریشان کرنا مذموم عمل ہے۔ کچھ نوجوان اپنی عمر اور طاقت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہتے اور ان کا دل دکھاتے ہیں لازمی طور پر ایسے بدبخت نوجوانوں کو اپنا محاسبہ کرنا اور اللہ کے عذاب سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حقیقی رشتہ جوڑنا یہ ہے کہ جو آپ سے رشتہ توڑے اس سے آپ رشتہ وابستہ رکھیں‘‘۔(صحیح بخاری)ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رشتہ عرش سے معلق ہے اور کہتا ہے جو مجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو مجھے توڑے گا میں اس کو توڑوں گا۔(صحیح بخاری و مسلم)
مصالحت اور ثالثی: اسلام خیر خواہی اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔اسلام محبت اور امن وسکون کا پیغامبر ہے۔اسلام کی طبیعت میں ظلم وجور نہیں ہے۔اسلام کسی کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔اسلام کی نگاہ میں ایک معصوم کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اسی مقصد کے تئیں اسلام ہر حال میں مسلمانوں کو مصالحت پر ابھارتا ہے۔کامیاب اور غیر جانب دارانہ ثالثی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔چنانچہ ان بابرکت دنوں میں ہر مسلمان کو خون خرابے سے دور اور پیار ومحبت سے رہنا چاہئے۔اگرآپس میں جھگڑا یا ناچاقی ہے تو اسے مل بیٹھ کر دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اللہ تعالی نے فرمایا:’’ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں،اس لئے ان کے مابین مصالحت کراؤ،اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘-الحجرات: 10)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بات چیت بند کرے یا اپنا چہرہ پھیرے۔اور ان دونوں(جھگڑا کرنے والے) میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے۔(صحیح بخاری)اگر دو فریق میں مصالحت کے لئے جھوٹ بھی بولنے کی ضرورت پڑے تو آدمی بول سکتا ہے۔ایک مسلمان کو ایسے تمام امور سے اجتناب کرنا چاہئے جن سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہی اور بد ظنی پیداہوتی ہے۔
محرمات سے اجتناب: ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں ہرمسلمان کو حرام کردہ امور سے مکمل دوری اختیار کرنی چاہئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن چیزوں کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے انہیں کرو اور جن سے میں نے روک دیا ہے ان سے رک جاؤ۔(سنن بیھقی) دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:’’حلال وحرام امور واضح ہیں اور ان کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں،جن کے بارے میں بہت سارے لوگ نہیں جانتے‘‘۔(صحیح بخاری) اس حدیث کا مفاد یہ ہے کہ ہمیں دین کے ہر معاملے میں حلت وحرمت کا خیال رکھنا چاہئے اور مشکوک ومشتبہ امور سے دور رہنا چاہئے۔
حرام کاموں میں یہ ہے کہ آدمی نماز ترک کرے یا نماز کو بلا کسی عذر شرعی کے موخر کرے۔سود خوری بھی حرام ہے۔زناکاری او ر شراب نوشی جیسے محرمات سے لازمی طور پر ایک مسلمان کو پوری زندگی اپنی حفاظت کرنی چاہئے بالخصوص ان مبارک دنوں میں ہرگز ایسے گناہوں کے قریب نہیں جانا چاہئے۔
ہر قسم کے ظلم وجبر سے پرہیز: وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہیں جو بلاو جہ کسی پر ظلم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں،یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔( الشوری: 42)اسی سورت کی آیت نمبر آٹھ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں‘‘۔ (الشوری:8) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہورحدیث کے مطابق دنیا میں کسی پر ظلم ڈھانا آخرت میں تاریکی کا سبب ہے۔(صحیح بخاری ومسلم)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی کسی کا ناحق طریقہ سے ایک بالشت زمین لیتا ہے تو آخرت میں اس کی گردن میں ساتوں طبق زمین ڈال دی جائیں گی۔( صحیح بخاری)
بھلائی کا حکم دینا اوربرائی سے روکنا: ان دس دنوں میں ہر شخص کو خود نیک کام کرنا اور دوسرے کو بھی نیکی اور بھلائی کا حکم دینا چاہئے۔ ایسے ہی خود برائی اور بے حیائی سے بچنے کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی برائی سے بچنے کی تاکید کرنی چاہئے۔اسی عمل کو شریعت میں’’ امر بالمعروف‘‘ اور’’ نہی عن المنکر‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس امت کا خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’جولوگ ایسے رسول نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں‘‘۔(الأعراف: 157)سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں،بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں‘‘۔ (التوبہ: 71)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے لفظوں میں اس بات کا اعلان کیا کہ اگر کہیں برائی ہوتی ہے اور لوگ اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے تو ایسی صورت میں اللہ کا ایسا عذاب آتاہے جس میں گنہگار اور بے گناہ دونوں قسم کے لوگ گرفتا رہوجاتے ہیں۔( جامع ترمذی) اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر ہم برائی کو اپنے ہاتھ سے روک سکتے ہیں تو ضرور روکیں، زبان سے روک سکتے ہیں تو روکیں ورنہ کم سے کم دل میں اس کو براجانیں۔(صحیح مسلم)
ذکر واذکار اور قرآن کریم کی تلاوت: ان دس دنوں میں ہر مسلمان کو بکثرت ذکر واذکار کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ اس کی خصوصی تاکید اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور لوگوں میں حج کی منادی کردے لوگ تیرے پاس پاپیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔ تاکہ اپنے لیے فائدے حاصل کریں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یادکریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ‘‘۔ (الحج: 27-28)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ تہلیل،تکبیر اور تسبیح بیان ہونی چاہئے۔ عید الأضحی کی تکبیرات اسی میں داخل ہیں۔ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے مطلق طور پر قربانی کے آخری دن تک تکبیر بلند کرنا مسنون ہے۔ بالخصوص عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے قربانی کے آخری دن عصر کی نماز کے بعد تک اس کی بڑی فضیلت ہے۔ صحابہ کرام جہاں رہتے تھے ان دس دنوں میں وہیں تکبیرات عید کا اہتمام کیا کرتے تھے۔اس زمانے میں ہم قربانی اور نئے پوشاک کا اہتمام تو کرتے ہیں مگر تکبیرات کا کچھ خاص خیال نہیں ہوتا، اس لئے لازما ہمیں ان سنتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
ان دس دنوں میں قرآن کریم کی تلاوت بھی کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے تلاوت قرآن سے متعلق فرمایا:’’جولوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی۔تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے بے شک وہ بڑا بخشنے والا قدرداں ہے‘‘( فاطر:29-30)
ان دس دنوں میں نفلی روزوں ،صدقہ خیرات اور قربانی کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر مسلمان اپنی استطاعت بھر اس خیر وبھلائی کے موسم سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ وقت گزر جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ اللہ ہم سب کو نیک کاموں کی توفیق دے اور ہمارے اعمال کو قبول بھی فرمائے۔

ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS