زبیر سے ادے پور تک: کہاں جارہی ہے سیاست

0

یوگیندریادو

اس بار کی گرمیوں میں آگ اگلتی سیاست میں ہمارا آئینی نظام پگھلتا دکھائی دے رہا ہے۔اوڈپی سے کھرگون، پریاگ راج، دہلی اور گلبرگ سوسائٹی کے راستے سے ہوتے ہوئے اڈپی سے لے کر ادے پور تک کے اس سیاسی سفر میں ہم نے ایک لمبی دوری طے کی ہے۔ بات چاہے کلاس روم میں حجاب پہن کر آنے پرپابندی کی ہو یا لائوڈاسپیکر سے آذان پر روک لگانے کا۔ یا سیدھے سیدھے بلڈوزرسے دھمکانے کی بات، مذہبی جذبات کی توہین سے لے کر سر قلم کرنے کی ہو ان مرحلوں سے گزرتے ہوئے ہم نے اس بارکی گرمیوں میں بڑی لمبی دوری طے کرلی ہے۔
آئین ان باریکیوں پر مشتمل ہے، وہ تمام نکات جن کا ہم سہارا لیتے ہیں اب منتشر ہوتے جارہے ہیں اور ایک نہایت نئے سیاسی نظام کے ہم رو برو کھڑے ہیں اس سیاسی نظام کو ہندوستان کی معتدل سیاسی اور جمہوری کو نظام مسخ کہنا بے معنی ہے۔ اس نئے نظام کا تقاضہ ہے کہ ہم اس کے ہی محاورے سے سمجھیں۔یہاں پر یہ کہنا بے معنی ہو گا کہ یہ ہندوستان کی لبرل ڈیموکریسی کو مسخ کرنے والا نظام ہے اس کو بالکل دوسرے انداز سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کی سرکار اندراگاندھی کے ذریعہ نافذ کی گئی ایمرجنسی کی لیپا پوتی کی کوشش کیوں کررہی ہے اور اس کو نصاب سے ہٹانے کی بات کررہی ہے کیوں یوگی آدتیہ ناتھ جاوید محمد کے گھر کو بلڈوزر سے مسمار کرکے اس کو اپنی انتخابی فتح کے طور پر پیش کررہے ہیں اور آخر کیوں سرکار تیستا سیتلواڑ اور محمد زبیر کے پیچھے پڑی ہے جب کہ اس کو معلوم ہے کہ توہین رسالت اور مذہبی جذبات کی توہین کے معاملے پر اس کو بین الاقوامی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان واقعات کو محض سیاسی نفع و نقصان کے ترازو میں تولنا مناسب نہیں ہے اور نہ ہی ان واقعات کو یہ کہنا کہ یہ مطلق العنان یا مکمل اکثریت سے بننے والی سرکار کا آپے سے باہر ہونے والا عمل ہے۔
یہ طریق کار دیوانگی ہے۔ ہم اس کو مکمل سیاسی نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں ہم یہ دیکھ رہے ہیں سیاسی اقتدار سماج کے دوسرے سییکٹروں جیسے سماج ، تہذیب، مذہب اور معیشت پر اس صورت حال کا اثرہے۔ سیاسی اقتدار میں تمام قسم کے اختیارات کا دبدبہ اور اثر ورسوخ نظر آتا ہے اس میں انتخابی، حکومتی ، نظریاتی اور گلی محلوں میں ہونے والی سیاست یاا سٹریٹ پولٹکس پر عبور بھی شامل ہے۔یہ ایک ایسی منزل کا تعاقب ہے جس میں سانس لینے کے لیے بھی گنجائش نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ڈرائیور کے پاس کوئی بریک نہیں ہے۔
در اصل 2022 ہندوستان کی تاریخ کاخزاں ہے اور نہ ہی ہم اس کو متعلق العنانی کی سیاست کو سرد جنگ کے دور سے جوڑسکتے ہیں اور نہ ہی اس کو فاشزم اور بنیاد پرستی کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔مکمل اکثریت والے نظام سے الگ ہٹ کر مکمل سیاست کو لگاتار اورکھل کر دکھنے والی عوامی حمایت درکار ہے۔ لہٰذا ہم کو عوام کو مکمل طور پر مصروف اور سرشار رکھنا ہوگا۔ پوری فاشزم سے الگ ہٹ کر یہ صورت حال تنہائی سے پیدا ہونے والی شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک لگاتار اور سرگرم زندگی کا حصہ ہے۔ یہ بنیاد پرستی کی طرح کی بھی سیاست نہیںہے جو جدید سیاست پر مذہب کو بھی مغلوب بنادیتی ہے۔
تیستا سیتلواڑ کی گرفتاری کو ہم نئے نظام کے دو عناصر اظہار کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ گلبرگ سوسائٹی کے بارے میں جو کلین چٹ کی بات کہی جارہی ہے یہ کوئی نئی نہیں ہے ۔ ہماری عدلیہ رائے عامہ کے پیچھے آتی ہے اور وہ سیاسی لیڈروں کے عمل اور بے عملی کو نظر انداز کرتی رہی ہے۔ یہ ایک قتل عام کے دوران کا ایسا کیس ہے جہاں ان لوگوں کو سزا دلوانے کی کوشش کرتا ہے جو اپنائیت کے خلاف مظالم کرنے والوں کو سزا دلوانے کی کوشش کررہا ہے۔ اب تک عدلیہ اب تک چن چن کر کارروائی کرنے والوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے مگر اس مرتبہ عدالت کے فیصلہ کو استعمال کرکے کارروائی کی جارہی ہے۔
محمد زبیر کی گرفتاری مکمل کنٹرول کی کوششوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ان کی گرفتاری صرف بدلہ لینے کے جذبہ سے نہیں کی جارہی ہے۔ اس سے کمزور عذر اور پھوہڑپن بھی اظہار ہوتاہے۔ در اصل سرکار کے ذریعہ عائد کیے گئے الزامات سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ سیاسی طور پر جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ ہی غالب رہے گا کہ ہم اس بالکل اسی بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ اس مقصد کی دشمنوں کو سزا دینے کی راہ میں شواہد حقائق یا ضروریات (بشمول عدلیہ) بھی آئیں۔ محمد زبیر کی گرفتاری بہت سے آن لائن رضاکاروں اور کارکنوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسان تحریک کے دوران بھی مصروف تھے۔ کیوں کہ ایسا کرنا سوشل میڈیا پر کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے۔ الٹ نیوز پر اس وار کا مقصد ہر ایک کو یہ پیغام دینا ہے کہ میڈیا کو اسی ٹوٹل پولٹیکس میں شریک ہونا ہی پڑے گا کیونکہ الٹ نیوز کا سرکار کے دعوئوں کے جھوٹ کی پول کھولنے میں بہت اہم ہے۔
مکمل غلبہ حاصل کرنے کی کوشش مسلسل کی جارہی ہے۔ صدارتی الیکشن میں این ڈی اے امیدوار کی شاندار جیت کو یقینی بنانے کی اسمارٹ اور کافی حد تک درست کوشش کی جارہی ہے۔ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو اپنی اوقات میں رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ مہاراشٹر کے معاملہ میں اقتدار کو بدلنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا جارہا اور یہ سب کچھ آئینی نکات کو نظر انداز کرکے کیا گیا ہے جہاں تک اقتصادی پالیسی کا معاملہ ہے۔ چاہیے اسی میں آربی آئی کی طرف سے گیہوں برآمدات کو ممنوع قراردینے کے معاملہ یا قانونی ضوابط کو پورا کرنے کا معاملہ ہو۔
اقتصادی پالیسی وضع کرتے وقت معیشت کے بنیادی پیمانوں کو پورا کرنے کی بات ہو جس اہل سیاست کی بالادستی ثابت کرنی ہی ہے۔ یہ معاملہ معیشت پر اقتصادی بالا دستی کامعاملہ ہے۔ اگنی پتھ اسکیم پر بھی سیاسی بالا دستی کی چھایہ ہے جس میں مسلح افواج کی فیصلہ کو نظر انداز کیا گیاہے۔
لگاتار ایمرجنسی اب کلاس روم میں حجاب پر پابندی ، آذان کو خاموش کرنا اور آخر میں بلڈوزر سے انصاف نے وہی دوسطحی شہریت نظام متعارف کردیاہے جس کا اشارہ شہریت (ترمیمی) قانون میں دیا گا تھا۔ عمر خالد کی ضمانت کی عرضی میں عدالتی کارروائی سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ نہ صرف انتظامیہ پولیس بلکہ عدالتیں بھی مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے لیے الگ الگ پیمانے استعمال کررہی ہیں۔ اپنے انہی کالمز میں میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تمام عملی مقاصد کے لیے آئین کی ترمیم کی جاچکی ہے اور موت کے معاملہ میں بھی دو بڑے معیارات استعمال ہونے لگے ہیں اگر ایک مسلم جنونی ایک ہندو کا سر قلم کردیتا ہے تو (جیسا اودے پور میں ہوا) اس پر پورے ملک میں رد عمل ہوگا اور ہونا بھی چاہیے مگر اگر کوئی ہندو ایک مسلمان کو قتل کردیتا ہے تو اس کو معمول اور مقامی اور محدود پیمانے کی خبر کے طرز پر نشر کیا جاتاہے۔
مکمل سیاست کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں وہ اودے پور کے بے رحمانہ قتل میں دکھائی دے گیاہے ۔ اگر چہ ہمیں تفتیش کے تنائج کا انتظار کرنا چاہیے مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف دو جنونی یا جرائم پیشہ عناصر کا عمل نہیں ہے۔
جہاں تک لنچنگ کے واقعات کا معاملہ ہے یہ واقعات مقامی سطح پر بنائے گئے بڑے نیٹ ورک کی حرکت میں ہیں جس کو شدت پسندوں کے ذریعہ پروان چڑھایا جاتا ہے۔
یہ مکمل طور پر مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے والے واقعات ہیں، یہ واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ حکمراں پارٹی اور اس کے حامیوں کے ذریعہ ان کی مسلسل ذلت ہے۔ جو ان کے اوپر زمین نظام کے ذریعہ بھی ڈھائے جارہے ہیں۔ پنجاب کے معاملہ میں دوسرے نظام چل رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ سنگرور کے ضمنی لوک سبھا الیکشن میں سمرجیت سنگھ مان کی واپسی ہوئی ہے۔کیا یہ صورت حال ایک سرحدی ریاست کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے؟
حدا کرے ایسا نہ ہو۔ مکمل یہ بھی ٹوٹل پولسٹکس سے جڑا ہوا مسئلہ ہے ۔ اس کے پھل کو چند مٹھی بھر لوگوں کو ملتے ہیں مگر اس کا خمیازہ سب کو بھگتناپڑتا ہے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے فاسسٹ دانشور کا رل اسمٹ نے اپنی کتاب ’پولیٹکل تھیولوجی‘ میں کیا خوب کہا ہے کہ اقتدار اعلیٰ کا حاصل وہ شخص ہے جو مستثنیٰ چیزوں پر فیصلہ نہیں ہے جب کہ لبرل جمہوریت پسندوں کی رائے ہے۔ جمہوریت وہ ہوتی ہے جو ایک منتخب شخص طے کرتا ہے ۔ کارل اسمت کا کہنا ہے کہ سیاسی اتھارٹی وہ ہوتی ہے جو ضوابط اور قواعد کو نظر انداز کردیتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ جمہوریت لبرل ازم کے مد مقابل ہے۔ سیاسی لیڈر طے کرسکتے ہیں۔ عوام کے حق میں ان چیزوں کے بارے میں فیصلہ لے لیں جن مثنیات کہہ سکتے ہیں۔ ان مثنیات کی حد کیا ہوگی اور کہاں تک ہوگی اس کے بارے میں کوئی حد نہیں ہے۔ ہر ایک مسلسل ایمرجنسی کہ صورت حال ہوگی۔ جو بہت دن تک چل سکتی ہے مجھے اس بات پر شک ہے کہ کبھی بھی کارل اسمیت کو انٹائر پولیٹکل سائنس کے نصاب میں کبھی بھی جگہ مل پائے۔ مگر اس حزاں میں وزیر اعظم کی بہرہ کردینے والی خاموشی سیاسی بالادستی پر اپنے آپ میں ایک واضح بیان ہے۔ یہ اسی طرح کامیابی ہے جیسا کہ کارل اسمیت نے وضع کیا تھا۔
یوگیندر یادو جے کسان آندولن اور سوراج انڈیا سے وابستہ رضاکار ہیں

ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS