بنگال میں تشدد:غیرجانبدارانہ تفتیش ضروری

0

قوت و اقتدار کو اگرا حتساب اور بازپرس کی لگا م نہ دی جائے تو وہ بے مہار ہوکر انسان کو حیوان بنادیتا ہے۔یہ قوت اگر حکومت کی شکل میں ہو تو ہر غلط اور ناجائز رواٹھہرتا ہے، مخالفین دشمن اور قابل گردن زنی سمجھے جانے لگتے ہیں۔ حکومت اگر خلاف توقع بھاری بھرکم مینڈیٹ کے ساتھ ملی ہو تو پھر کیا کہنے، مخالفین کودیواروں میں بھی چنوایا جاسکتا ہے، ہاتھ پکڑنے والوں کی کلائی کاٹی جاسکتی ہے۔بولنے والے منھ بند رکھنے کیلئے زبان تک کاٹ ڈالی جاسکتی ہے اور پھر ان سب کو دشمنوں اور مخالفین کے الزامات بتاکرا ن پر پردہ بھی ڈالنے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سچ ہے کہ آستین کا لہوچھپایا نہیں جاسکتا، کوئی نہ کوئی ایسا وقت آہی جاتا ہے قوت و اقتدار کو احتساب و باز پرس کی لگام دی جانے لگتی ہے۔ اب بنگال میں بھی یہ عمل شروع ہوگیا ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے مغربی بنگال ریاستی اسمبلی انتخابات اور بعداز انتخاب ریاست کے مختلف مقامات پر ہونے والے تشدد اور ظلم و جبر کی کارروائی کی تفتیش کیلئے مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی ) کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔اس کے ساتھ ہی انتخاب کے دوران ہونے والے دیگر جرائم کی تفتیش کیلئے خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی )بھی بنانے کی ہدایت دی ہے۔عدالت نے سی بی آئی کو کہاہے کہ وہ انتخاب کے دوران اور بعداز انتخاب ہونے والے تشدد کے تمام معاملات میں اپنی رپورٹ 6ہفتوں کے اندر پیش کرے۔
جمہوری حکومت میں انتخاب ہی اقتدار اور قوت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ ہوتے ہیں۔ جن میں فرد کو آزادانہ رائے دہی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ا نتخابی عمل کو پرامن، صاف شفاف اور ہر طرح کی بدعنوانی سے پاک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کے باوجود سیاسی جماعتیں انتخاب میں جیت حاصل کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتی ہیں۔ جیت تک پہنچنے کیلئے دھن،دھونس اور دھاندلی کی ہر راہ اپنائی جاتی ہے، کہیں کم کہیں زیادہ، لیکن مغربی بنگال کی سیاست اور یہاں ہونے والے انتخابات کم اور زیادہ تشددکے پیمانہ سے بھی آگے بڑھ کر لہورنگ ہوگئے ہیں۔
چند مہینوں قبل ہونے والے انتخابات میں توتشدد کی ساری حدیں پار کردی گئی تھیں۔ نتائج آنے اور حکومت سازی کے بعد بھی تشدد کا یہ سلسلہ نہیں تھما۔بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات ہوئے، لوگوں پرحملہ کیاگیا جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے، قتل اور عصمت کے درجنوں واقعات پیش آئے۔لیکن ان تمام واقعات سے انکاری رہی، تفتیش کرنا تو کجا قتل اور عصمت دری جیسے بعض سنگین معاملات میں ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی۔ ان ہی واقعات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش کرنے کیلئے کلکتہ ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کی گئی تھی جس کی سماعت کے دوران عدالت نے جو تبصرے کیے ہیں وہ عام آدمی کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری سے حکومت کی سنگین غفلت کی نشاندہی کرتے ہیں۔کلکتہ ہائی کورٹ نے جرائم سے متعلق ریاستی حکومت کے رویے کو انتہائی غیر سنجید ہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے قتل اورعصمت دری جیسے سنگین جرائم سے متعلق سوالات کا بھی درست جواب نہیں دیا۔ اسی مقدمہ میں عدالت کی ہدایت پر تفتیش کے بعد قومی حقوق انسانی کمیشن بھی اپنی رپورٹ میں حکومتی غفلت کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ تک کہہ چکا ہے کہ مغربی بنگا ل میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ حکمرانوں کا قانون چل رہا ہے۔ 60فیصد معاملات میں پولیس انتظامیہ نے ایف آئی آر ہی درج نہیں کی۔قتل کے 20 مقدمات میں، جہاں حقوق انسانی کمیشن کی کمیٹی نے ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق سوالات کیے تھے مگر پولیس انتظامیہ نے اس کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا۔
ریاستی حکومت نے کمیشن کی اس رپورٹ کی سختی سے تردید کرتے ہوئے 95 صفحات پر مشتمل حلف نامہ میں کہاتھا کہ یہ کمیٹی بنگال کے خلاف تعصب سے بھری ہوئی ہے۔کمیٹی کے سربراہ اور دیگر ارکان کے تئیں بھی غیرذمہ دارانہ الزامات لگاتے ہوئے انہیں بنگال دشمن قرار دیا تھا۔کمیشن کی رپورٹ میں بیان کردہ تمام واقعات کو فرضی اور من گھڑت بتاتے ہوئے اس کی تردید کی تھی اور یہ تک دعویٰ کیاتھا کہ انتخاب کے بعد بنگال میں سیاسی تشدد کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ نیز انتخاب کے دوران ہونے والے تشدد سے نمٹنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے سر ڈال کر دامن کش ہوگئی تھی۔لیکن عدالت حکومت کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی، آج کی سماعت میں انتخابی تشدد کے ہر ایک جرم کو سنجیدہ تحقیقات کامتقاضی قراردیتے ہوئے اس کی ذمہ داری سی بی آئی کے سپرد کردی۔
ریاست کے عوام کی امیدوں کا یہی تقاضا بھی ہے کہ تشدد کے ان خونچکاں واقعات کی آزادانہ و غیر جانبدارانہ تفتیش ہو۔قا نون کی بجائے طاقت کی حکمرانی چلانے والوں کاسخت ترین احتساب ہو اور انہیں قانون کی گرفت میں لایاجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS