! تشدد مقصد سے بھٹکا دیتا ہے

0

ڈاکٹرجسیم محمد
گروپ ایڈیٹر، روزنامہ راشٹریہ سہاراوعالمی سہارا
جمہوریت میں بات کہنے کی آزادی سب کو ہوتی ہے۔ اگر کوئی بات ناگوار معلوم ہو تو اس کے لیے احتجاج اور مظاہرہ کرنے کی بھی آزادی ہوتی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کے احتجاج و مظاہرہ پرامن ہو، پرامن مقاصد کے حصول کے لیے ہو، کسی کی ایما پر نہ ہو۔ اس ملک اور ےہاں کی سیاست سمجھے بغیر یہ بات نہیں سمجھی جا سکتی کہ سیاسی پارٹیاں موقع کا فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ عام دنوں میں سیکولرزم کے نام پر سیاست کرنے والی کئی پارٹیاں موقع ملتے ہی اصل چہرہ دکھاتے وقت یہ نہیں سوچتیں کہ انہیں چنائو میں بھی جانا ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انتخاب آتے آتے لوگ ان کے پچھلے عمل کو بھول جائیں گے، ان کے وعدوں پر یقین کر لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ شہریت ترمیمی بل کی حمایت خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں نہ کرتیں تو کیا تب بھی یہ بل پاس ہو جاتا؟ مسلم لیڈروں نے اپنی نام نہاد سیکولر پارٹیوں پر دبائو بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کوشش اس لیے نہیں کی کہ انہیں سیاست کرنے اور اس توسط سے فائدہ اٹھانے سے مطلب ہے، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے اعلیٰ کمان کا موقف کیا ہے۔ انتخابی تاریخوں کے اعلان کے بعد وہ ضرور مسلمان بن جاتے ہیں، خود کو مسلمانوں کا سب سے بڑا بہی خواہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں، مسلمانوں کے مسئلے انہیں یاد آنے لگتے ہیں اور سب سے مایوس کن بات یہ ہے کہ مسلمان بھی ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں، وہ اکثر اپنی قوم کے ایک امیدوار کو جتانے کے چکر میں دیگر مذاہب کے اچھے امیدواروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان کے مظاہروں کی سمت کیا ہے؟ کون سی پارٹی خود کو سیاسی طور پر زندہ کرنے کے لیے ان کا استعمال کر رہی ہے؟
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہا ہے کہ ’ملک کے حالات آج کیا ہیں، سبھی کو پتہ ہے۔ کسان پریشان ہیں، بے روزگاری بلندی پر ہے اور معیشت کی حالت بہت ہی خراب ہے۔‘شہریت ترمیمی ایکٹ اور این پی آر کا نام لےے بغیر اشاروں اشاروں میں راہل نے یہ بھی کہا ہے کہ ’توڑنے سے کچھ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ کثرت میں ہی وحدت ہے۔ الگ الگ سماج، ذات، مذہب ہمارے ملک کی خوبی ہے اور ان کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔‘لیکن بی جے پی کے قومی صدر اور ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کی کانگریس کے بارے میں رائے ہے کہ ’وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہے اور یہ کہہ رہی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون اقلیتوں کی شہریت چھین لے گا۔ میں راہل بابا کو چیلنج دیتا ہوں کہ اس قانون میں ایک بھی جگہ کسی کی بھی شہریت لینے کا التزام ہے تو دکھائیے۔‘شاہ نے کہا ہے کہ ’ملک کے سبھی مسلمان سے اپیل ہے کہ وہ خود شہریت ترمیمی قانون کو سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، ورنہ جھوٹ اور بھرم پھیلانے والی سیاسی پارٹیاں ووٹ بینک کے لیے ہمیں آپس میں یونہی لڑاتی رہیں گی۔‘وزیرداخلہ کی اس بات پر توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو کسی کے بہکاوے میں آنے کے بجائے خود شہریت ترمیمی ایکٹ کے بارے میں جاننا چاہیے اور اس کے بعد اپنی حکمت عملی طے کرتے وقت کسی پارٹی یا کسی لیڈر کی باتوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے بارے میں سوچنا چاہیے، انجانے میں بھی دوسروں کے مفاد کے حصول کے لیے وسےلہ نہیں بننا چاہیے، کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔
پرتشدد مظاہروں سے آج تک نہ کسی مسئلے کا حل نکلا ہے اور نہ کبھی نکلے گا۔ تشدد مظاہروں کو بے سمت بنانے، مقصد سے بھٹکانے اور جدوجہد کو کمزور کرنے کا کام کرتا ہے۔ وہ لوگ جو مسلمانوں کے بہی خواہ بنتے ہیں، مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے رہتے ہیں،جیلوں سے مسلمانوں کو چھڑانے کے لیے وہ کےا کر رہے ہیں، توجہ اس بات پر بھی ہونی چاہیے۔ پبلک پراپرٹی جلائی جاتی ہے تو اس سے نقصان عام لوگوں کا ہی ہوتا ہے، اس کی حفاظت کرنا سب کا فرض ہے۔ غصے کا اظہار اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ آگ پبلک پراپرٹی میں لگا دی جائے۔ امید ہے، لوگ حالات پر توجہ دیں گے۔ خود تشدد سے بچیں گے اور اپنی صفوں میں موجود تشدد کرنے والوں کی پہچان کر کے انہیں قانون کے حوالے کریں گے، تاکہ چند شر پسند عناصر کی وجہ سے کئی لوگوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کرنی پڑیں۔ 
ہم سے رابطہ کے لیے : [email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS