پردہ! خواتین کا محافظ

0

شکیل مصطفیٰ
خدا کا نظام یہ ہے کہ جو چیز اہم ہوتی ہے اور نازک بھی اسے حفاظتی حصار میں رکھا جاتاہے۔ انسان کے ہاتھ پائوںپر کوئی حصار نہیں رکھا گیا لیکن دماغ کو سخت ہڈیوں والی کھوپڑی کے اندر رکھا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کا تحفظ ہوسکے۔ دل کی جگہ سینے کی لچک دار ہڈیوں کے بیچ رکھی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی حفاظت ہوسکے۔ آنکھوں پر پلکوں کا پہرہ بٹھایا گیا۔ نباتات کا جائزہ لیجیے۔ آم پر دبیز چھلکوں کا لباس نہ ہوتا تو کیا مکھیوں اور بھڑوں سے بچ کر وہ انسانوں کے ہاتھ آسکتا تھا؟ گنے پر موٹا چھلکا نہ ہوتا تو کیا ہم میٹھے سے فیضیاب ہوتے؟ اگر چاول اور گیہوں کے دانوں پر ان کی حفاظت کے لیے چھلکے نہ ہوتے تو کیا انسان انہیںاپنی خوراک بنا بھی سکتا؟
مردوںا ور عورتوں میں عورتیں حفاظت کی زیادہ محتاج ہیں۔ خدا نے ان کو مردوں کے لیے وجۂ ٔکشش بنایا۔ اسی لیے ان کی تراش و خراش میں حسن کاری اور لطافت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھا گیا ہے اور لطافت نزاکت چاہتی ہے۔ عورتوں کے اس تخلیقی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حفاظت کی زیادہ محتاج ہوتی ہیں۔ اگر کسی کا لڑکا شہر جائے اور اسے چار بجے شام تک آجانا چاہیے تھا لیکن وہ رات کے دس بجے لوٹے گاتو ماں باپ کو اس سے گھبراہٹ نہیںپیدا ہوتی ۔ لیکن اگر یہی واقعہ اگر کسی لڑکی کے ساتھ پیش آئے تو دل کا قرار چھن جاتا ہےاور ماں باپ پریشان ہوجاتے ہیں۔
پوری دنیا میں مردوں اور عورتوں کے عددی تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ خدا نے ان دونوں صنفوں کو توازن کے ساتھ پیدا فرمایا تاکہ دونوں طبقات کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عریانیت سے بچائے اور لباس زیب تن کرے۔ یہی مابہ الامتیاز جانور اور انسان میں ہے۔ فطرت اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ مردوں کے مقابلہ عورتیں زیادہ ڈھکی چھپی ہوں۔ فرض کیجیے دو لڑکیاںراستے سے گزر رہی ہیں۔ ایک لڑکی کا لباس چست اور شوخ ہو۔ اس کا سر کھلا ہو۔ اس کے بازو کھلے ہوں۔ دوسری لڑکی سرتاپا نقاب میں ہو یا کم سے کم ڈھیلا لباس اور سر پر دوپٹہ ہوتو اوباش قسم کے لڑکے ان میں سے کس کو چھیڑنے کی کوشش کریں گے۔ ہوس ناک نگاہوں کا تیر کس کی طرف متوجہ ہوگا؟
برائی کے جذبات ان میں سے کس کے تئیں دلوںمیںکروٹ لیں گے؟یقیناً بے پردہ لڑکی اس کا نشانہ بنے گی۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ مدت پہلے جب دہلی میں لڑکیوں کو چھیڑنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی کثرت ہوئی تو پولس کمشنر نے ہدایت جاری کی کہ لڑکیاں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر بازاروں اور تعلیم گاہوں میں نہ جائیں۔ کیونکہ اس سے جرم کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ مگر افسوس کہ حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے اس معقول تجویز کے خلاف ایسا شور برپا کیا کہ تجویز واپس لینی پڑی۔
ہندو مذہب میں بھی قدیم عہد سے پردے کی روایت رہی ہے۔ سیتاجی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب راون نے انہیں اغواء کیا تو شری رام جی کے چھوٹے بھائی لکشمن جی انہیں پہچان بھی نہیں سکے۔ لکشمن جی کہتے ہیں کہ ایک ہی جگہ رہنے کے باوجود ہم نے کبھی اپنی بھاوج کی صورت نہیں دیکھی۔ اور جب شری رام جی نے سیتاکے لیے ہار بھیجے تو سیتا مختلف عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس لیے لکشمن انھیں پہچاننے سے قاصر رہے۔ یہ واقعات جن کا برادرانِ وطن کی مذہبی کتابوں میں آج بھی ذکر موجود ہے۔ یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ ہندو مذہب میں عورتوں کی عفت و عصمت، شرم وحیا اور پردہ وغیرہ کو کتنی اہمیت حاصل تھی۔ ہندو سماج میں اکثر اونچی ذات کی عورتیں پردہ کیا کرتی تھیں۔ ان کے یہاں برقعہ نہیں ہے مگر گھونگھٹ رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے۔
پردہ نہ ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور نہ اس سے ترقی کے مواقع ختم ہوتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بہت سی باکمال خواتین پیدا ہوئی ہیں جن کےحالات پر کئی جلدیں لکھی گئی ہیں۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ وہ معلم ہوسکتی ہیں، وہ طبیب ہوسکتی ہیں، وہ شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کرسکتی ہیں، وہ کارِ افتاء انجام دے سکتی ہیں۔ مقدمات میں جج بن سکتی ہیں۔
اگر مردوں اور عورتوں کے لیے جداگانہ ضروریات کا نظم کیا جائے، الگ الگ اسپتال ہوں، عورتوں کے لیے مخصوص مارکیٹ ہوں تو خواتین کے لیے معاشی تگ و دَو کے بھی اتنے مواقع پیدا ہوجائیں گے جو انہیں اس وقت میسر نہیںہیں اور وہ آزادانہ ماحول میں بہتر طور پر کام کرسکیں گی۔ اگر ٹرین میں خواتین کے لیے مخصوص کوچ ہوسکے، بسوں میں ان کے لیے محفوظ سیٹیں ہوں اور اسپتالوں میں ان کے وارڈ الگ رکھے جائیں تو زندگی کے شعبوں میں خواتین کے لیے علاحدہ اور مستقل انتظام ہوتو اس میں کیا دشواری یا برائی ہے؟
پردہ خواتین کو مجرمانہ ذہن سے بچانے کا ذریعہ ہےاور اس کا مقصد ان کی حفاظت ہے۔ مغرب پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ جبکہ پردہ خواتین کا محافظ ہے۔ مغرب خواتین کو محدود کپڑوں میں دیکھنا چاہتا ہے جبکہ وہ پردہ میں رہ کر ترقی کے مراحل طے کرسکتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS