پروفیسر اخترالواسع
آج ڈاکٹر آصف عمر کے ٹیلی فون سے یہ اندوہناک خبر ملی کہ ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک اچانک ہمارے بیچ سے چلے گئے۔ یوں تو زندگی کی اٹل سچائی ایک ہی ہے اور وہ موت ہے۔ جو آیا ہے اسے دیر سویر جانا ہی ہے لیکن کسی کا اتنی جلدی چلے جانا اور وہ بھی اس طرح سے دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ وہ اچھے خاصے غسل خانے میںگئے تھے لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ دستِ قضا نے ان کو ہم سے اس طرح چھین لیا۔
ڈاکٹر ویدک 30 دسمبر 1944 کو اندور میں پیدا ہوئے۔ وہ مختلف خوبیوں کے مالک تھے۔ انہیں بین الاقوامی امور پر مہارت حاصل تھی اور اس لیے مختلف ملکوں میں ان کو انتہائی محبت اور احترام سے بلایا جاتا تھا۔ وہ مہارشی دیانند، مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی مذہبی، فکری اور سیاسی روایات کو آگے بڑھانے میںلگے رہتے تھے۔
وہ ہندی کو ایک نیا تخلیقی رخ دینے میں اور اس کو بنیادی فکری زبان کے طور پر آگے بڑھانے میں ہمیشہ آگے آگے رہے اور وہ اکثر ہندی والوں کی طرح تنگ نظر نہیں تھے بلکہ دوسری ہندوستانی زبانوں کے فروغ کے لیے بھی پیش پیش رہتے تھے۔ انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے بین الاقوامی امور پر پی ایچ ڈی حاصل کی تھی اور اس کا بھی ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہندی میں جمع کرنے پر اصرار کیا جس کے لیے جواہر لال یونیورسٹی کی انتظامیہ راضی نہیں تھی۔ ویدک جی نے اسے ایک قومی مسئلہ بنا دیا اور یہ معاملہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں تک پہنچ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ویدک جی کو اس معاملے میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا، مدھولیمے، آچاریہ کرپلانی، گرو گولوالکر، دین دیال اپادھیائے، اٹل بہاری واجپئی، چندرشیکھر، ہیرن مکھرجی، ایم بروا، بھگوت جھا آزاد، پرکاش ویر شاستری، کشن پٹنائک، ڈاکٹر ذاکر حسین، رام دھاری سنگھ دنکر، ڈاکٹر دھرم ویر بھارتی، ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن اور پروفیسر سدھیشور پرساد جیسے قدآور سیاسی رہنماوں، شعرا، ادبا اور ماہرین تعلیم کی حمایت حاصل ہوئی اور اس طرح جے این یو کی تاریخ میں وہ پہلے ایسے محقق تھے جنہیں ہندی میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر ڈگری تفویض کی گئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندی سے ان کا یہ عشق جے این یو میں ہی آکر نہیں جاگا بلکہ جب وہ 13 سال کے تھے تو 1957 میں ایک ہندی ستیہ گرہی کے طور پر گرفتار کئے گئے، پٹیالہ جیل میں رہے اور اس طرح ڈاکٹر رام منوہر لوہیاکی رہنمائی میںانہوں نے ہندی کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے بار بار جدوجہد کی۔
وہ ایک زبردست مصنف تھے جنہوں نے افغانستان میں سوویت روس اور امریکہ کی کشاکش پر ایک کتاب لکھی، انگریزی ہٹانے کو اپنا موضوع بنایا، ہندی صحافت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی، ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر بھی قلم اٹھایا۔ انہوںنے بھاجپا، ہندوتو اور مسلمان پر بھی کتاب لکھی اور اگر دیکھا جائے تو 1962 سے اپنے انتقال کے ایک دن پہلے تک انہوں نے ٹی وی، ریڈیو اور اخباروں کو مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ وہ 10 سال تک پی ٹی آئی کی ہندی سروس بھاشا کے بانی ایڈیٹر رہے۔ اس سے پہلے نوبھارت ٹائمس سے بھی ان کا بحیثیت ایک ایڈیٹر کے تعلق رہا۔
شری وید پرتاپ ویدک کو دنیا جہان میں اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ بھارتیہ بھاشا سمیلن اور بھارتیہ ودیش نیتی پریشد کے بھی صدر تھے۔ خسرو فاونڈیشن کے ساتھ ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ 29 جولائی 2022 کو وہ ہماری دعوت پر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر آئے اور ہندی ساہتیہ میں مسلم ساہتیہ کاروں کا یوگدان نامی کتاب کی رسمِ اجرا بھی ان کے ہاتھوں ہوئی۔ انہوں نے اس موقعے پر جس طرح محبت سے اور سلیقے سے ہندی اردو کے رشتوں پر روشنی ڈالی وہ اب تک ہمارے ذہنوںمیں محفوظ ہے۔ راشٹریہ سہارا اردو کے قارئین اب تک ان کی مختصر لیکن جامع تحریروں سے برابر مستفیظ ہوتے رہے لیکن اب وہی نہیں رہے تو ان کی تحریریں کہاں سے پڑھنے کو ملیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کے خیالات سے پوری طرح اتفاق نہ کریں لیکن انہیں بہرحال نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔
اب جب کہ وہ پنچ تتو میں ولین (مل گئے) ہو گئے، ہم ان کو یادی ہی کر سکتے ہیں اور ان کے گھر والوں اور چاہنے والوں سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ صبر کریں۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔ بہرحال اس کے علاوہ اب اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ:
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
(مضمون نگار جامعہ ملیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)