مسلمان اور میڈیا: حقیقت و گزارشات

0

سیف الرحمن

موجودہ دور مقابلہ آرائی کا دور ہے اور اس مقابلہ آرائی میں جو چند بڑے ذرائع مقابلہ ہے ان میں سے ایک اہم ترین ذریعہ میڈیا کا ہے- آج میڈیا وہ ذریعہ ہے جو مظلوم و بے قصور افغانستان،عراق،شام اور لیبیا کے خلاف پوری دنیا کو امریکہ کے ظالمانہ اقدام کے ساتھ کھڑا کر دیتا ہے, جیسا کہ اشرف علی بستوی نے کارپوریٹ میڈیا ایک جائزہ میں لیکم ایکس کا قول نقل کیا ہے کہ “اگر آپ محتاط نہیں ہو تو میڈیا آپ کو مظلوموں سے نفرت کرنے اور ظلم کرنے والوں سے محبت کرنے پر مجبور کر دیگا”
میڈیا وہ ذریعہ ہے کہ جو پوری دنیا کو چند ممالک کے پروڈکٹس کے خریدار بننے و بنے رہنے پر مجبور کرکے پوری معاشیات کو چند ہاتھوں میں جمع کر دینے میں بڑا مددگار ثابت ہوا ہے – یہ میڈیا ہی ہے جس نے تمام چھوٹی بڑی تہذیبوں و نظریات کو مغربی تہذیب و نظریہ کے زیر اثر کردیا ہے یہاں تک کہ مسلم دنیا بھی آج تہذیبی و نظریاتی طور پر مغرب زدہ ہوکر بے حیائی،مذہب بیزاری اور ارتداد کے راستے پر دوڑ پڑی ہے –
ان تمام کے ساتھ سیاسی طور پر بھی میڈیا سب سے مضبوط ہتھیار کے طور پر سامنے آیا ہے, آج دنیا میں طاقت کے ہر ردوبدل کے بعد اسمیں میڈیا کا اہم ترین کردار سامنے آتا ہے جسکی بڑی مثالیں عرب بہاریہ اور ہندوستان میں نریندر مودی کی پہلی و دوسری حکومت ہے – اگر ہم ہندوستانی سیاق و سباق میں دیکھیں تو آج میڈیا کے سہارے ایک قوم کو ویلن بنا کر نفرت کے سیاست کی بنیاد پر ملک کو جکڑ سا لیا گیا ہے اور اسی نفرت کی لو کو جلائے رکھتے ہوئے پوری عوام کو سیاسی،معاشی،نظریاتی غلام بناکر رکھا جا رہا ہے، اور یہ سب اسی میڈیا کے سہارے ہورہاہے جو کہ انسانی مزاج کے نظریات و افکار پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا آلہ ہے – جس کے بارے میں اشرف علی بستوی نے اپنی کتاب کارپوریٹ میڈیا ایک جائزہ میں جیس.سی اسکاٹ کا قول نقل کیا ہے کہ “لوگ بھیڑیں ہیں،ٹی.وی چرواہا ہے”
ہندوستان کے اس مکمل نفرت پر مبنی سیاست کا سب سے زیادہ شکار ہونے والا کوئی طبقہ ہے تو وہ ہے مسلمان، کیونکہ ایک طرف چند فیصد لوگوں کا پورے ملک کو سیاسی،معاشی اور نظریاتی غلام بنانے کے لئے دِیگر تمام طبقات کی طرح اسے بھی ہر طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے تو وہیں ان تمام کوششوں میں بلی کا بکرا بھی اسے ہی بنایا گیاہے- اب تک تو بس مسلمانوں کی شبیہ کو اس طرح بگاڑا جاتا رہا کہ جسکے اثر سے تمام ملکی و سماجی اداروں میں مسلمان مین اسٹریم سے نکال دیا گیا لیکن اب کھلے عام پوری اکثریتی آبادی کو مسلمانوں کے قتل عام کیلئے تیار کیا جارہا ہے – یہی وجہ ہے کہ بارہا مسلمانوں میں اپنے میڈیا ہاس کے قیام کی بحث چھڑتی رہتی ہے لیکن بس چند دنوں میں خاموشی چھا جاتی ہے جسکی سب سے اصل وجہ اس قوم کی بے حسی اور کام چوری کی عادت ہے کیونکہ اس قوم کے اندر ہنگامہ آرائی کیلئے تو بدر و احد والا ایمان جاگ جاتا ہے لیکن تعمیری جدوجہد میں مکمل عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے ۔
پھر بھی کچھ افراد اٹھتے ہیں اور ہمت کرکے آگے بڑھتے ہیں لیکن آخری حد تک کوشش کرنے کے بعد قوم کی بے حسی کی وجہ سے اپنی کوشش پر تالا لگانے کے لئے مجبور ہو جایا کرتے ہیں، جیسا کہ ظفر الاسلام خان صاحب کے ملی گزٹ اور دارالمصنفین وغیرہ کے ساتھ ہوا ۔ لہذا ضرورت ہے کہ قوم کا نوجوان طبقہ اور دانشوران ملت سنجیدگی کے ساتھ اس پر فکر کریں اور عملی زمینی اقدامات کی طرف بڑھیں کیونکہ اگر فوری طور پر اس محاذ پر مضبوط اقدامات کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت کوختم کرنے اور مسلمانوں کے فکری،نظریاتی تربیت کا کام شروع نہیں کیا گیا تو شاید وہ دور بھی جلد ہی دیکھنا پڑ جائے جسکے خیال سے ہی رات کی نیندیں اڑ جائے-
اس سلسلے میں کام کرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد سے گزارش ہے کہ ہنگامہ بپا کئے بغیر اپنی بساط بھر کوششیں شروع کرے اور اس حقیقت کو مانتے ہوئے کہ الکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا کا قیام بہت ہی مشکل ترین کام ہے ، آپ ڈیجیٹل میڈیا پر دھیان مرکوز کریں اور یقین مانیں آپ چند دوست مل کر جتنے خرچ میں ایک مشاعرہ کر لیتے ہیں اتنے میں آپ ضلعی اور صوبائی سطح کا ایک معیاری نیوز پورٹل و یوٹیوب چینل چلا سکتے ہیں، ماہانہ 5 لاکھ میں صوبائی سطح کا ایک معیاری ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم چلایا جا سکتا ہے لہذا آپ مخلص افراد کی ٹیم بنا کر اس طرح چھوٹے چھوٹے سطح پر شروعات کریں اور اگر آپ کے وسائل زیادہ ہو تو پھر صوبائی سطح پر مکمل میڈیا سسٹم کھڑا کر سکتے ہیں جسمیں فوری خبروں کو دینے والا نیوز پورٹل و یوٹیوب چینل ،ریسرچ پر مبنی اسٹوریز کیلئے ایک پورٹل و یوٹیوب چینل ، نریٹیو سازی و کانٹر نریٹو کیلئے ایک سوشل میڈیا ٹیم،نظریاتی نقطہ نظر سے واقعات و حادثات کا تجزیہ کرنے کیلئے نیوز پورٹل و یوٹیوب چینل اور مسلمانوں سے متعلق صوبے بھر کے معاملات و واقعات پر ڈیٹا جمع کرنے اور ڈاکیومنٹیشن کیلئے ایک ٹیم بنانے کا کام کیا جاسکتاہے- اگر آپ اس کام کیلئے چند مخلص افراد کو ساتھ لیکر صوبائی سطح پر ایک ٹرسٹ بنا کر پھر ہر ضلع سے 10-10 ڈونر بناکر آگے بڑھنا چاہیں تو انشا اللہ آپ یہ کام یقینی کر پائینگے۔
میں اس موقع پر ملی تنظیموں سے خاص کر ان تنظیموں اور اداروں (جن کی قیادت با حوصلہ و سمجھدار نوجوان قیادت کے ہاتھ میں آئی ہے) سے گذارش کرتا ہوں کہ ہمیشہ بڑوں کی طرف سے چینل اور اخبارات کی ضرورت پر شاندار بیانات آتے رہے ہیں لیکن اب وہ وقت نہیں رہا کہ صرف شاندار باتوں سے کام چلایا جا سکے لہذا آپ حضرات فی الحال ٹی.وی اور اخبارات شروع کرکے دو دن میں قوم کے مسائل حل کردینے والے منصوبہ بندی کو چھوڑ کر کم سے کم ڈیجیٹل میڈیا پر اپنا تھوڑا سا دھیان مرکوز کردیں، کیونکہ آپکی تھوڑی سی توجہ سے اس محاذ پر اچھا کام ہو سکتا ہے اس سلسلے میں نوجوانوں کے چھوٹے چھوٹے گروپس کو حوصلہ دیکر صوبائی سطح پر الگ الگ میڈیا گروپس کا قیام کرا سکتے ہیں ،آپ ان میڈیا گروپس کو جو کہ قومی سطح پر موجود ہیں – جیسے کہ ملت ٹائمس،مکتوب میڈیا، ٹی.سی.این، مسلم میرر،اِنصاف ٹائمس،ملی ڈائجسٹ،دی-کوگنٹ،کلیرین،حق میڈیا،نوس نیوز،بصیرت آنلائن،مضامین ڈاٹ کام،ساحل آنلائن،نگارشات،پل پل نیوز،جن مانس نیوز وغیرہ کا حال ماضی کی کوششوں والا ہونے سے بچا کر مضبوط متبادل بنا کر ان کو کھڑا کر سکتے ہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک سسٹم ایسا بنایا جائے جس میں انکے معاشی مسائل کا مستقل حل نکل آئے کیونکہ یہ جنگ رضاکاروں نہیں تربیت یافتہ فوج کے ذریعے لڑے جانے والی جنگ ہے، ساتھ ہی پورے ملک کے ایسی میڈیا ہاسز کا ایک چینل سسٹم قائم ہو اور انکے صحافیوں کی تربیت کے انتظامات بھی ہو تاکہ یہ مضبوطی کے ساتھ اسلام مخالف و ملک مخالف نظریات والے جانب دار صحافت کا حقیقی توڑ بن سکے۔ ساتھ ہی پورے ملک میں درجنوں فری لانس صحافی ہے جو کہ آج خطرات سے کھیل کر ملکی و عالمی سطح پر سنگھی ذہنیت ساتھ ہی اسلامو فوبک میڈیا کو ناکوں چنے چبوانے کا کام کر رہے ہیں، ضرورت ہے کہ ایسے فری لانس صحافیوں کو بھی کورڈینیٹ کیا جائے- اس کی چند کوششیں ماضی میں بھی ہوئی جسمیں سے ایک کوشش آل انڈیا مسلم ڈیولپمنٹ کانسل و دکن ڈائجسٹ کے بانی طلحہ گلبرگوی کے ذریعے آندھرا پردیش کے کرنول میں ہوئی تھی، مگر یہ کوشش بھی زیادہ آگے نہ بڑھ سکی ،اسی طرح سے ایک بار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محمود پراچہ نے بھی اسکی کوشش کی تھی اور ابھی 11 مارچ کو دہلی کے کلے کچن ہوٹل میں بھی زاکر علی تیاگی و دیگر کی کوشش سے ایسی ہی ایک ملاقات ہوئی لیکن اس طرح کی کوششیں اب تک بہت آگے نہیں بڑھ سکی ہے، جب کہ اگر ڈیٹا کو سامنے رکھا جائے تو یہ یقینی مانا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا کچھ سسٹم بنتا ہے تو ملک میں سنگھی و نام و نہاد اور اسلامو فوبک میڈیا کا فوری اور بہتر متبادل کھڑا ہو جائیگا لہذا مسلم قیادتِ کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے ۔
ایک اور فکر کی بات ہے کہ موجودہ حکومت جس طرح پورے اپوزیشن،انسانی حقوق گروپس اور صحافت کو توڑ دینے کی کوششیں کر رہی ہے اسکا شکار مسلم صحافی بھی ہو رہے ہیں لہذا میڈیا گھرانوں و صحافیوں کے قانونی مدد کیلئے بھی اس سسٹم میں ایک شعبہ قائم کیا جانا چاہئے- یہ سارے کام یقینا بہت ہی زیادہ اہم اور بہت جرات و تدبر سے کیے جانے والے ہیں لیکن بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ۔تھوڑی سی سنجیدہ کوشش اور کچھ چند درجن مشاعروں اور جلسوں کے برابر خرچ سے ایک بڑا کام تکمیل پا سکتا ہے ۔بس کاش ہنگامہ آرائی کی جگہ تعمیری فکر سے بڑھنے کا ہم عظم کرلیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS