آلودگی کاخطرناک مسئلہ

0

آلودگی ایک بڑامسئلہ ہی نہیں ، جان لیوامسئلہ ہے۔ کوئی خاص توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ مسئلہ ہردن خطرناک ہوتا جارہاہے۔سوئس فرم ’آئی کیو ایئر‘نے منگل کو ’ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ‘ کے نام سے دنیا کے131ممالک کی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔اس میں ہندوستان کے بارے میں کئی باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک تو دنیاکے سب سے زیادہ آلودہ ممالک کی فہرست میں ہمارا ملک 8ویں نمبر پر ہے، دوسرے دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ 100 شہروں میں سے 65کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ تیسرے سب سے زیادہ آلودہ 10 شہروں میںسے 6 شہر ہندوستانی ہیں۔ چوتھے دنیاکے سب سے زیادہ آلودہ شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہندوستان کے بھیواڑی اور راجدھانی دہلی کا نام ہے۔ ان کے علاوہ ٹاپ 10 آلودہ شہروں میں دربھنگہ، آسو پور، پٹنہ بھی شامل ہیں۔ہم یہ کہہ کر خود کو تسلی دے سکتے ہیں کہ راجدھانی دہلی سے زیادہ آلودہ شہر پاکستان کا لاہور اور چین کا ہوتن ہیں، جہاں بالترتیب پی ایم 2.5کی سطح97.4اور پی ایم 2.5 کی سطح 94.3 ہے، جبکہ دہلی میں پی ایم 2.5 کی سطح 92.6 ہے،لیکن کیا یہ کم ہے کہ دنیا کے ٹاپ 10ممالک کی فہرست میں ہم شامل ہیں اور ٹاپ 10آلودہ شہروں کی فہرست میں بھی ہماری اکثریت ہے۔ رپورٹ میں ایک اوراہم بات یہ کہی گئی ہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہندوستان کو 150 بلین ڈالر کے نقصان کا اندازہ ہے۔ یہ پہلی بین الاقوامی رپورٹ نہیں ہے ، جس میں ہندوستان میں پائی جانے والی فضائی آلودگی کی بین الاقوامی سطح پر منظرکشی یا درجہ بندی اس طرح کی گئی ہے۔ہم بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارے ملک میں فضائی آلودگی بہت سے مقامات اورشہروں میں خطرناک حد تک رہتی ہے۔سوئس فرم نے اپنی رپورٹ بھی دنیا کے131 ممالک کے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کی ہے۔ اس کے تجزیہ میں غلطی ہوسکتی ہے، لیکن ہندوستان میں آلودگی ایک حقیقت ہے۔
ہم اگرچہ آلودگی کے مسئلہ کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، جتنا دنیا کے ادارے لیتے ہیں۔ہم معمول کے مطابق بلکہ پابندی سے فضائی آلودگی کی رپورٹ روزانہ بلکہ بڑے شہروں میں ہر وقت جاری کرتے ہیں،لیکن اتنی توجہ اسے کم کرنے پر نہیں دیتے، آلودگی کی سطح نہ صرف ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے، بلکہ اس کی زد میں نئے نئے اب تو چھوٹے چھوٹے شہر آرہے ہیں۔جن کے بارے میں پہلے تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہوکہ پہلے چھوٹے شہروں میں آلودگی کو ماپنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔ ملک نے ترقی کی تو چھوٹے شہروں تک ٹیکنالوجی اور بڑے شہروں کی سہولیات پہنچنے لگیں، جس کی وجہ سے ہر جگہ کے حالات سامنے آنے لگے، جن پر پہلے پردہ پڑا رہتاتھا۔ حقیقت جو بھی ہوملک میں آلودگی کا دائرہ جس تیزی سے بڑھ رہا ہے ، وہ کافی تشویشناک ہے۔ اس پر توجہ دینے کی شدیدضرورت ہے۔ہندوستان میں فضائی آلودگی نہ تو نیا مسئلہ ہے اورنہ دنیا پہلی بار اس پر توجہ دلارہی ہے۔ 2-3 سال پہلے تک اس پر کم از کم راجدھانی دہلی میں موسم سرما سے پہلے جب فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک پہنچ جاتی تھی اورلگتا تھا جیسے راجدھانی گیس چیمبر بن گئی ہے۔تو کافی سیاست ہوتی تھی اورہنگامہ ہوتا تھا۔ریاست سے لے کر مرکزی حکومت تک حرکت میں نظر آتی تھیں۔آلودگی کو کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جاتے تھے اوراس کے اثرات زمین پر ظاہر ہوتے تھے،لیکن اب نہ تو ایسی سیاست یا ہنگامہ ہوتا ہے اورنہ ہی اس طرح کے اقدامات نظر آتے ہیں۔ ایسالگتاہے، جیسے آلودگی کو برداشت کرنے کی یاتو ایک عادت سی پڑگئی ہے یا لوگوں کومہنگائی کی طرح اس کا عادی بنادیا گیا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ سال پہلے تک ہم پرالی جلانے کو آلودگی پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ بتاکر ایک طرح سے کسانوں کو اس کاذمہ دارٹھہراکر آگے نکل جاتے تھے، لیکن سوئس فرم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کل آلودگی کا 20-35فیصد ٹرانسپورٹ سیکٹر سے پھیلتاہے، اس کے علاوہ صنعتیں اورکوئلے سے چلنے والے پاورپلانٹس بھی آلودگی پھیلانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ فضائی آلودگی سے ملک کو جومعاشی نقصان پہنچ رہا ہے، وہ اپنی جگہ پر ہے، جیسا کہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے۔اس سے لوگ بہت زیادہ بیمار پڑرہے ہیں۔ سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے۔ لوگوں کی جانیں جارہی ہیں۔اس لیے جتنی توجہ ہم فضائی آلودگی کو ماپنے پر دے رہے ہیں۔ اتنی ہی اس کی سطح کو کم کرنے پر دینا بہت ضروری ہے۔اسی میں ملک کی بھی بھلائی ہے اور شہریوں کی بھی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS