ٹیکہ پر الجھتی عالمی سیاست

اپنے ٹیکہ کو اچھا بتانا، دوسرے ملک کے ٹیکہ کو کمتر ثابت کرنا کوئی اچھی پالیسی نہیں ہے اور کسی بھی ملک کو اس سے بچنا چاہیے

0

چندرکانت لہاریا

کووڈ-19 ویکسین وبا کی شروعات سے ہی خبروں میں رہی ہے اور ہمیشہ امید کی کرن کے طور پر دیکھی گئی۔ لیکن پہلے ٹیکہ کی منظوری سے قبل ہی ’ٹیکہ قوم پرستی‘شروع ہوگئی تھی، جس میں کئی خوش حال ممالک اپنے شہریوں کے لیے، اپنی آبادی کی ضرورت سے پانچ گنا تک ٹیکوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے میں مصروف ہوگئے۔ خوش قسمتی سے، ٹیکہ سائنسدانوں کی محنت سے کئی ممالک میں کووڈ ٹیکوں کی ایجاد کامیاب ہوئی اور 20مہینوں میں پوری دنیا میں 20سے زائد ٹیکوں کو ایمرجنسی منظوری ملی۔ باوجود اس کے، ستمبر کے وسط تک پوری دنیا میں لگائے گئے 850کروڑ ٹیکوں میں سے تقریباً 80فیصد ٹیکے اَپر اور اَپر مڈل انکم والے ممالک میں لگے ہیں۔ کم آمدنی والے گروپ کے ممالک کے کھاتہ میں ٹیکوں کی بہت کم خوراک پہنچی، جب کہ ٹیکہ کی دستیابی ہر ملک کے لیے مساوی طور پر ضروری ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ امیر ممالک کی 80فیصد آبادی کو دونوں خوراک لگ چکی ہیں اور اب وہ تیسری و چوتھی خوراک پر غور کررہے ہیں، جب کہ کئی ممالک میں بمشکل 10فیصد آبادی کو ٹیکے کی محض پہلی خوراک لگ سکی ہے۔ ’ٹیکہ عدم مساوات‘ کی یہ ایک واضح مثال ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ میں ’ٹیکہ قوم پرستی‘ یا ’ٹیکہ عدم مساوات‘ ظاہر کرتے ہیں کہ امیر ممالک اور عالمی برادری ایک دوسرے کی مدد کی جتنی بھی باتیں کریں، زمینی سطح پر تمام دعوے کھوکھلے نظر آتے ہیں۔
برطانیہ کے ذریعہ جاری کی گئی نئی سفر اور ٹیکہ کاری سے متعلق ہدایات اسی سلسلہ میں ہیں۔ ان ہدایات کے مطابق 4؍اکتوبر کے بعد کئی ممالک کے شہریوں کو، جو اپنے یہاں مکمل ٹیکہ کاری بھی کراچکے ہوں گے، برطانوی حکومت منظوری نہیں دے گی اور برطانیہ آنے والے ایسے سبھی لوگوں کو 10دنوں تک تنہائی میں رہنا ہوگا۔ ساتھ ہی، انہیں مستقل آرٹی پی سی آر جانچ بھی کرانی ہوگی۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جنہیں ہندوستان میں بنی کووی شیلڈ دی گئی ہے۔ تنازع ہونے پر برطانیہ نے بھلے ہی کووی شیلڈ کو منظوری دے دی ہے، لیکن اس ویکسین لگے مسافروں کو بھی وہاں بغیر ٹیکہ کاری کا سمجھا جائے گا اور ان پر وہ تمام پابندیاں عائد کی جائیں گی جو بغیر ٹیکہ لگے اشخاص پر نافذ ہوتی ہیں۔ یاد رکھنا ہوگا کہ کووی شیلڈ اور برطانیہ میں لگنے والی آکسفورڈ ایسٹراجنیکا ویکسین سائنسی لحاظ سے برابر ہیں، بس ویکسین بنانے کی جگہوں میں فرق ہے۔
برطانیہ کا یہ قدم غلطیوں کی اسی سیریز کی اگلی کڑی ہے، جو عالمی برادری کووڈ-19ٹیکہ کاری کے تناظر میں مسلسل کرتی آرہی ہے۔ ورنہ اس بات کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے کہ جن ٹیکوں کو برطانیہ اپنے یہاں لگا رہا ہے، وہی ٹیکے جب دوسرے ملک کے شہری لگاکر اس کے یہاں آنا چاہتے ہیں تو ان پر پابندیاں عائد ہوںگی؟ برطانیہ نے افریقی ملک کینیا کو وہاں بنے آکسفورڈ- ایسٹراجنیکا ٹیکے بھیجے، لیکن کینیا کے شہری، جنہیں وہ ٹیکے لگے، اگر برطانیہ آتے ہیں تو برطانوی حکومت ان کو بھی منظوری دینے سے انکار کرتی ہے۔ کئی ممالک نے برطانیہ کی اس پالیسی کو ’ٹیکہ تفریق‘ بتایا ہے، اور حکومت ہند نے جب اس پالیسی کی مخالفت کی تب دو دن برطانوی حکومت نے ہندوستان کے ٹیکہ سرٹیفکیٹ پر سوال کھڑا کردیا۔ بیشک اس تنازع کا حل جلدی ہی نکل آئے گا، لیکن یہ واقعہ بتارہا ہے کہ کووڈ وبا سے نبردآزما ہونے میں عالمی برادری جو غلطیاں کررہی ہے، ان کو جلد سے جلد سدھارنے کی کتنی ضرورت ہے۔

سبھی ممالک کو ٹیکوں کو باقی دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے کیے گئے اعلانات کہ اکتوبر کے وسط سے کچھ اینٹی کووڈ ٹیکے برآمد کیے جائیں گے، قابل ستائش قدم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک ابھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے تو پھر کب دیں گے؟ وقت کم بچا ہے، لیکن عالمی برادری کے پاس ابھی ایک اور موقع ہے۔ آنے والی نسل ہمارے سبھی اقدامات کا تجزیہ کرے گی۔

ہندوستان کے لیے بھی یہ غوروخوض کا وقت ہے۔ کچھ حد تک دقت اعداد و شمار کی عدم دستیابی کی بھی ہے۔ کووڈ ٹیکوں سے وابستہ کئی معلومات اب تک عام نہیں کی گئی ہیں، جب کہ کچھ اعداد و شمار پالیسی سازوں اور عوام کے لیے جاننا نہایت ضروری ہے۔ ٹیکہ سے سکیورٹی کا مسئلہ اس میں کافی اہم ہے۔ مثلاً سبھی کووڈ-19 ٹیکوں کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری مل گئی، لیکن ٹیکوں کو عام لوگوں میں لگنے کے بعد کچھ منفی اثرات بھی نظر آئے ہیں، جن کو ’ایڈورس انوینٹ فالوئنگ امیونائزیشن‘ (اے ای ایف آئی) کہتے ہیں۔ اس طرح کے اعداد و شمار سے علم ہوا کہ کووڈ-19 کے کچھ پیچیدہ اثرات ہوسکتے ہیں، جیسے خون کا تھکا بننا اور مایوکارڈایٹس۔ ہندوستان میں یہ اعداد و شمار ٹیکہ وار دستیاب نہیں ہیں۔ یہ بالکل سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومتوں کے پاس اگر اس بابت کوئی اعدادوشمار ہیں تو اس کا کس قدر استعمال ہورہا ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو پھر ایسے اعداد و شمار کیوں نہیں اکٹھے کیے جارہے ہیں؟ ہم صحت کے شعبہ میں اعداد و شمار جمع کرنے اور اس کے استعمال میں آہستہ نظر آتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا یہ عمل مضبوط ہوتا تو ممکنہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کے پاس بہت پہلے کوویکسین کی منظوری کا مسئلہ پہنچ گیا ہوتا اور اب تک فیصلہ بھی آچکا ہوتا۔ ایسے میں ایک طرف کوویکسین کو ڈبلیو ایچ او کی منظوری نہیں ملی ہے تو دوسری طرف کووی شیلڈ کو کئی ممالک میں پابندی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان اس سے بہتر کرسکنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ صورت حال اگر زیادہ دنوں تک قائم رہی تو پھر ٹیکوں کے سلسلہ میں عوام میں پیدا ہوا جوش کمزور پڑسکتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس سے بچنا ہوگا۔
ظاہر ہے، کووڈ-19 وبا میں ’ٹیکہ قوم پرستی‘، ’ٹیکہ تفریق‘ اور ’ٹیکہ عدم مساوات‘ جیسی باتیں بڑے چیلنجز بن کر سامنے آرہی ہیں۔ کئی بڑے ممالک نے عالمی برادری کو مایوس کیا ہے۔ اپنے ٹیکہ کو اچھا بتانا اور دوسرے ملک کے ٹیکہ کو کمتر ثابت کرنا کوئی اچھی پالیسی نہیں ہے اور کسی بھی ملک کو اس سے بچنا چاہیے۔ سبھی ممالک کو ٹیکوں کو باقی دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے کیے گئے اعلانات کہ اکتوبر کے وسط سے کچھ اینٹی کووڈ ٹیکے برآمد کیے جائیں گے، قابل ستائش قدم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک ابھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے تو پھر کب دیں گے؟ وقت کم بچا ہے، لیکن عالمی برادری کے پاس ابھی ایک اور موقع ہے۔ آنے والی نسل ہمارے سبھی اقدامات کا تجزیہ کرے گی۔
(مضمون نگار پبلک پالیسی اور ہیلتھ سسٹم کے اسپیشلسٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS