نئے نہیں مسلم دنیا سے اویغوروں کے رشتے

0

عرب تاجروں کی آمدورفت اور کاروبار کے تعلق سے چین میں اسلامی اثرات برسوں پرانے ہیں۔ یہ عوامی جمہوریت چین کا خودمختار علاقہ ہے۔ یہ علاقہ بہت وسیع اور تقریباً 16,64,897 مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ ریگستان اور خشک علاقہ ہونے کی وجہ سے آبادی صرف 2,58,52,345 ہے۔ سنکیانگ کی سرحدیں منگولیا، تاجکستان، افغانستان، کرغزستان، قزاقستان ، پاکستان اور ہندوستان سے ملتی ہیں۔ سنکیانگ صدیوں سے کاشتکاری اور تجارت پرمنحصر ہے۔ کاشغر سمیت کئی شہر اور قصبے مشہور شاہراہ ریشم کے لیے مشہور ہیں۔ چنگ دور میںاسے سنکیانگ نام دیا گیا۔ انگریزی میں اسے Xinjiang کہا جاتا ہے۔ مانچو زبان میں سنکیانگ کا مطلب ’نیا صوبہ‘ اور چینی زبان میں ’ نئی سرحد‘ ہے۔ سنکیانگ میں ترکی نسل کے باشندوں کی اکثریت ہے جو اویغور کہلاتے ہیں۔ قریب قریب یہ سبھی مسلمان ہیں۔ ان کی زبان و ثقافت چینی زبان و ثقافت سے الگ ہے۔ وہ ترکی زبان بولتے ہیں۔
سنکیانگ کو چینی ترکستان یامشرقی ترکستان بھی کہا جاتا ہے۔ سنکیانگ کی دارالحکومت ارمچی ہے لیکن سب سے بڑی آبادی کا شہر کاشغر ہے۔ نسلی اعتبار سے کبھی سنکیانگ میں 98 فیصد مسلمان تھے لیکن نسل کشی اور ہانوں کو بسانے کی وجہ سے اب سنکیانگ میں 45.84 فیصد اویغور اور 40.48 فیصدہان ہو گئے ہیں۔ وہاں 6.50 فیصد قازق،4.51 فیصد حوئی اور 2.67 فیصد دیگر لوگ رہتے ہیں۔ چوتھی صدی عیسوی سے ترفان میں اویغوروں کی مختصر آبادی تھی۔ 605 سے 630 کی دہائی تک اویغوروں نے کچھ عرصے کے لیے وہاں حکومت بھی کی۔ 790 کی دہائی اور 821 کے درمیان وقفے وقفے سے انہوں نے بیش بالق پر اپنا اقتدار قائم رکھا، بعد میں تبتیوںکے ساتھ امن معاہدہ کیا۔ اس کے بعد اویغور اپنے داخلی اختلاف اور تبتیوں کی عائد کردہ خلیج کے باعث کمزور پڑ تے گئے۔
اویغور بدھ مت کے ماننے والے تھے۔ دسویں صدی میں یہاں اسلام کی زبردست ترویج ہوئی اور اویغوروں کی اکثریت مشرف بہ اسلام ہوئی ۔ رفتہ رفتہ اسلام مغرب سے مشرق کی طرف پھیل گیا۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک مشرقی ترکستان کی بڑی آبادی مسلمان اویغوروں پر مشتمل تھی۔ تیرہویں صدی میں اس خطے پر حکمرانی کرنے والے چنگیز خان کے یہاں اویغوروں کا مقام دانشور اشرافیہ کا تھا۔ انہوں نے منگولوں کو اپنا رسم الخط دے کر لکھنا پڑھنا سکھایا مگر چغتائی خان کے دور حکومت میں اویغور دوسرے درجے کے شہری ہو گئے۔ معاشرے میں پوری طرح ضم ہو جانے کی وجہ سے اویغور قرون وسطیٰ کے اویغور نہیں رہے۔ کئی صدی تک چینی سلطنت اور مشرقی ترکستان میں سفارتی اور تجارتی تعلقات برقرار رہے۔ بعد میں چین نے حملہ کرکے وہاں سے منگولوں کو نکال دیا اور مشرقی ترکستان کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ 1911 کے انقلاب میں چین میں سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اورقوم پرست دور کا آغاز ہوا۔ 1930 میں اویغور نام دوبارہ سامنے آیا۔ 1933 میںحالات بہتر ہونے پر انہوں نے مشرقی ترکستان کو پہلی جمہوریہ بنایا جو ایک سال رہا۔ 1944اور1949کے درمیان یہ تجربہ پھر دوہرایا گیا۔ اس میں مسلم قوم پرست اور کمیونسٹ ایک ساتھ رہتے تھے۔ اس کے بعد ماؤ زے تنگ نے سنکیانگ کے خود مختار اویغور خطے کی بنیاد رکھی۔ 1960 کی دہائی میں اویغوروں کی اصلاح کو لازمی سمجھا گیا۔ 1967 کے تباہ کن ثقافتی انقلاب میں مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے علاوہ مساجد اور مقبروں کو تباہ کر دیا گیا۔ پھر مسلح مزاحمت کی شروعات کے ساتھ اویغورعلیحدگی پسندی ابھرکر سامنے آئی۔ 1997 میں ایک بس کے اوپر ہوئے حملے سمیت کئی واقعات دیکھے گئے۔ 2009میں ارمچی میں منعقدہ بین الا مذاہب تقریب سے تنازع پیدا ہوا۔ تب سے یہ تناؤ بدستور جاری ہے اور اویغوروں کے حالات بد سے بدتر ہی ہوئے ہیں،مگر ربیعہ قدیر جیسی خواتین اویغوروں کے لیے امید کی کرن ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS