اتر پردیش : مرض بڑھتا گیا۔۔۔

0
ATIF RABBANI

اتر پردیش جسامت اور آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ چوبیس کروڑ کی آبادی والے اس صوبے میں آجکل اسمبلی انتخابات کا گھمسان مچا ہوا ہے۔ سیاسی چپقلش کا دور دورہ ہے۔ آئینی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر مذہب، مسلک اور فرقے کی بنیاد پر ووٹروں کو لام بند کیا جا رہا ہے۔

ان سب کے درمیان، ایک بہت بڑا مسئلہ—صحت—تمام انتخابی بحثوں و مباحثوں میں پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ وہ بھی تب جب ملک کو گزشتہ دو سالوں سے کووڈ کی وبا کا بھی سامنا کرنا پڑا ہو۔ اور ریاست کو اس وبا کی وجہ سے سخت مصیبتوں اور بربادیوں سے بھی دو چار ہونا پڑا ہو۔ اور دریائے گنگا میں بہتی لاشوں کے انبار کو پوری دنیا نے دیکھا ہو۔ ویسے بھی یہ ہندوستانی سیاست کا المیہ ہے کہ تعلیم اور صحت جیسے مسائل کبھی بھی انتخابی سیاست کا سروکار نہیں بنتے۔

اسی کی دہائی میں مشہور ماہر معاشیات اور ڈیموگرافر آشیش بوس نے شمالی ہندوستان کے مخصوص خطے کو “بیمارو” (BIMARU) صوبوں کے نام دیا تھا۔ بیمارو سے مراد ہے – بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اتر پردیش۔ یہ وہ صوبے تھے جو ترقی کی دوڑ میں کئی سالوں سے مسلسل پیچھے تھے۔

ان بیمارو صوبوں میں، اتر پردیش ایک ایسا صوبہ ہے جو ترقی کے کئی اشاریوں کی بنیاد پر، آج بھی واقعی (ڈی فیکٹو) بیمار ہے۔ صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار بھی یہی صورتحال پیش کرتے ہیں۔

حال ہی میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 (این ایف ایچ ایس-5) کی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ صحت اور غذائیت کے مختلف اشاریوں پر صوبہ اتر پردیش کی کارکردگی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ تمام اعداد و شمار انتہائی مایوس کن نتائج پیش کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار پر مشتمل تمام اشاریے ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جیسے ہم وسطی افریقی ملک روانڈا سے بھی گئے گزرے ہوں۔

ماہرین اقتصادیات نومولود بچوں کی شرح اموات (ائی ایم آر)، کو ‘فلیش انڈیکیٹر’ کا نام دیتے ہیں۔ صرف اس ایک اشارے—ائی ایم آر—سے ہی کسی معیشت یا ریاست میں ترقی کی سطح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ائی ایم آر کی اعلیٰ سطح صحت، تعلیم، کھپت سمیت تمام معاشی اور سماجی اشاریے کی خراب حالات کا غماز ہوتی ہے۔

این ایف ایچ ایس-5 کے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں ائی ایم آر 50 ہے۔ شہری علاقوں میں یہ شرح 42 اور دیہی میں 53 ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ریاست میں پیدا ہونے والے ہر 1000 بچوں میں سے 50 بچے اپنی پہلی سالگرہ ماننے سے پہلے ہی لقمۂ اجل ہوجاتے ہیں۔ آئی ایم آر کا قومی اوسط 35 ہے۔ اس معاملے میں ریاست قومی اوسط سے بہت پیچھے ہے۔

قومی صحت پالیسی (این ایچ پی-2017) میں ائی ایم آر کو سال 2025 تک 28 پر لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اتر پردیش اس ہدف کو حاصل کرنے میں پوری طرح سے ناکام دکھائی دیتا ہے۔ صحت کے ان اشاریوں کی بنیاد پر، ہم تیسری دنیا کے ان ممالک کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں – ہیتی اور یمن میں یہ شرح با الترتیب 47 اور 46 ہیں، جبکہ روانڈا کی 30 ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبے میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات قومی اوسط سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں یہ شرح 60 ہے، جبکہ قومی شرح 42 ہے۔ این ایچ پی-2017 میں اس شرح کو سال 2025 تک 23 پر لانے کا ہدف ہے۔ اس ہدف کی حصولیابی بھی دور کی کوڑی ہے۔

عیاں ہو کہ جموں و کشمیر صحت کے اس پیرامیٹر پر اتر پردیش سے کہیں بہتر مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہاں یہ شرح 9.8 ہے۔ یعنی، اتر پردیش میں پانچ سال سے کم عمر کے ہر ہزار بچوں پر ساٹھ بچے بے وقت موت کے سامان بنتے ہیں۔ جبکہ جموں و کشمیر میں صرف 10 بچے! صحت کے اس اشارے میں بھی، اتر پردیش یمن (59) کے ساتھ ہے، جبکہ روانڈا (34) بدتر حالت میں ہے۔

این ایف ایچ ایس-5 کے اعداد و شمار بچوں کی غذائیت کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔ غذائیت کے یہ اشاریئے اور بھی زیادہ مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں۔

صوبے میں پانچ سال سے کم عمرکے 40 فیصد بچے اسٹنٹنگ یعنی ضائع اورکم وزن کا شکار ہیں۔ دوسری طرف، 6 سے 59 ماہ کی عمر کے 66.4 فیصد بچے خون کی کمی (انیمیا) کا شکار ہیں۔ جبکہ این ایف ایچ ایس-4 میں یہ شرح 63.4 فیصد تھی۔

اعداد و شمار یہ بھی دکھاتے کہ اتر پردیش میں ہر دوسری عورت خون کی کمی کا شکار ہے۔ تولیدی عمر—15 سال سے 49 تک—کی 50.4 فیصد خواتین  خون کی کمی کی گرفت میں ہیں۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، 2019 میں، روانڈا کے تولیدی عمر کی عورتوں میں 23.5 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار تھیں۔

مشہور میڈیکل جرنل لانسیٹ (Lancet) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، خون کی کمی کی شکار عورتوں کو دوران حمل ہونے والی پیچیدگیوں یا زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جانے کا خدشہ صحت مند خواتین کے مقابلے دو گنا ہوتا ہے۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ خون کی کمی والی ماؤں کے بتن جنم ہونے والے بچوں میں آٹزم کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ انکا آئی کیو لیول پانچ سے دس فیصد کم ہو سکتا ہے۔

اتر پردیش ایسی ریاست ہے جہاں تپ دق (ٹی بی) کے کیسز سب سے زیادہ ہیں۔ ملک میں تپ دق کا ہر پانچواں مریض اتر پردیش کا شہری ہے۔ ان ایچ پی-2017 کے اہداف میں 2025 تک تپ دق کو ختم کرنا بھی ہے۔ ایسے میں اس مقصد کا حصول بھی بعید از قیاس لگتا ہے۔

آیا کہ اتر پردیش اب بھی ‘بیمارو’ کے زمرے میں ہے یا نہیں – اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست صحت کے تمام پیرامیٹرز پر اب بھی بیمار ہے۔ دوسری طرف سیاسی بحثیں صحت کے بجائے فرقہ وارانہ اور جذباتی مسائل پر مرکوز ہیں۔ یہ دورِ حاضر کا المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟

عاطف ربانی

اسسٹنٹ پروفیسر (اقتصادیات)

بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسٹی، مظفر پور۔

موبائل: 9470425851

ای میل: [email protected]

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of inform
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS