واشنگٹن(ایجنسیاں): امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ کے جلو میں ایران کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کے ایلچی روب میلے نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ یک طرفہ طور پر تہران پر عائد کی گئی پابندیاں نہیں اٹھائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ بائیڈن انتظامیہ صرف اس صورت میں کچھ پابندیوں کو کم کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے جب فریقین کے مابین بامقصد اور تعمیری بات چیت شروع ہو۔ دونوں طرف سے اقدامات کا آغاز ہو۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست بات چیت زیادہ موثر ہوتی ہے اور اس میں غلط فہمی کے امکانات کم ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن کے لیے اس فارم کے مقابلے میں مواد زیادہ اہم ہے۔ روب میلے نے بدھ کے روز ایکزیوس ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے زور دیا کہ آئندہ جون میں ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات پالیسی سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جوہری تنازع سے کیسے نمٹنا ہے۔ صدر جوزف بائیڈن جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران سے 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے میں دوبارہ شمولیت پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں لیکن انھوں نے اس کی یہ شرط عائد کی ہے کہ ایران پہلے اس سمجھوتے کے تمام تقاضوں کو پورا کرے اور حساس جوہری کام بند کر دے۔ دوسری جانب ایران امریکہ سے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں عائد کردہ تمام اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔صدر ٹرمپ نے 2018ء میں جوہری سمجھوتے کو خیرباد کہہ دیا تھا اور ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ان کے ایرانی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان کے نتیجے میں ایرانی شہری گوناگوں مسائل سے دوچار ہوچکے ہیں۔ 2015ء میں ایران نے چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے میں اپنے حسّاس جوہری پروگرام کو منجمد کرنے سے اتفاق کیا تھا لیکن امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کے جوہری سمجھوتے سے انخلا کے ایک سال کے بعد 2019ء میں ایران نے دوبارہ یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS