اردو ترقی پسند زبان اور جنگ آزادی میں اردو کا اہم رول:اپیندررائے

0

اردو زبان کو اس کا واجب حق دلانے کیلئے سڑک سے سنسد تک لڑائی لڑی جائے:قربان علی، اردو صحافت کے 200 سال کی تکمیل پر پریس کلب میں خصوصی تقریب کا انعقاد
نئی دہلی (محمدغفران آفریدی/ ایس این بی)
سہارانیوز نیٹ ورک کے سی ای او اینڈ ایڈیٹر ان چیف اپیندررائے نے ’تعمیرہند میں اردو میڈیا کا کردار ‘ کے عنوان پر منعقد ایک پروگرام میں کہاکہ اردو ہندوستان کی ترقی پسند زبان ہے،سبھی ہندوستانیوں کی زبان ہے اوراردوزبان نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیاہے، اس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو زبان میں ہندی ، فارسی ، عربی ، ترکی اور سنسکرت کے الفاظ ہیں، اردوکی پیدائش ہندوستان میںہوئی ہے، مگر تقسیم وطن میںاردوزبان کو نقصان ہوا ہے۔پریس کلب آف انڈیا کے زیر اہتمام اردو صحافت کے 200سال کی تکمیل پر منعقد کا نفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک اپیندررائے خطاب کررہے تھے۔
اپیندررائے نے اپنی پُر مغز گفتگو میں، جہاںاردو زبان سے انسیت ولگائو کے حوالے سے مختلف خیالات کااظہار کیا،وہیں اردو زبان کو اس کا بہتر و مناسب درجہ نہ ملنے پر گہرا افسوس جتایا۔ انہوں نے بتایا کہ اردو سے میرا شروع سے ہی لگائو تھا۔انہوں نے مزید کہاکہ زبانیں صرف اسی وقت زندہ رہتی ہیں، جب ان میں تجربات کی جگہ ہو،یعنی ان میں مزید ریسرچ ہو اور وقت کی رفتار کے ساتھ انہیں جدیدیت سے جوڑا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ساتویں صدی میں جب دوسرے ممالک سے لوگ تجارت کیلئے ہندوستان آنا شروع ہوئے تو اس دوران ہندوستان میں ایک نئی زبان نے جنم لیا، شروع میں اس زبان کواردوکہاگیااور پھر یہ اردوبن گئی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی سرزمین ہندوستان ہے، جہاں اردو نے جنم لیااور آج یہ خوب پھل پھول رہی ہے۔ اپیندررائے نے یہ بھی کہا کہ وطن عزیز کی آزادی کیلئے لڑنے والے تمام مجاہدین نے بھی اردوزبان کا استعمال کیا ہے اور یہ جہاں انقلابی زبان ہے، وہیںپیارومحبت و عشق کی زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی سے قبل ملک میں کل 415 اخبارات تھے، جن میں سے 70 اخبارات نے پاکستان جانا قبول کیا، باقی یہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ آج انگریزی زبان اس لئے مؤثر ہے کہ انگریزی دنیا میںکاروبار و روزگار کی زبان بن گئی ہے، جبکہ اردو زبان پسماندہ ہے، کیونکہ اردو نہ تو کاروبار کی زبان بنی، نہ اس زبان میں کتابیں لکھی گئیں، نہ دفاعی جریدے لکھے گئے۔ ہندی کا بھی یہی حال تھا، جبکہ دونوںکابھائی بہن والا رشتہ ہے۔اپیندررائے کا یہ بھی کہناتھا کہ اردو زبان آج بھی روز مرہ کے استعمال میں بول چال کی زبان ہے۔ انہوںنے کہاکہ نئی چیزیں بنانے کیلئے لمبی چھلانگ لگانی پڑتی ہے،وقت ختم ہو رہا ہے اور ہم پیچھے رہ رہے ہیں، ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا اور لمبی چھلانگ لگانی ہوگی۔قبل ازیںمعروف شاعر احمد علی برقی اعظمی نے اردو صحافت کے 200سالہ جشن کے موقع پر نظم پیش کی اور شرکا نے اردو کے معروف صحافی وشہید مولانا محمد علی باقر کی تصویر پر گلہائے عقیدت پیش کیا۔اس موقع پرسابق ایم پی شاہد صدیقی نے اپنی تقریرمیں کہاکہ اردو نے یقینی طور پر ہندوستان کی تعمیر وترقی میں بے پناہ اوراہم رول ادا کیا ہے، اس کے علاوہ ہندوستان کو قوم بنا نے میں بھی اردو کا اہم کردار ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پوری تحریک اردو سے ہی بنی تھی،یہی نہیں بھگت سنگھ کی جو تحریریں تھیںوہ سب اردو میں ہی تھیں ،انڈین نیشنل آرمی بننے میں اردو کا بڑا رول تھا ،نیز نیشن بلڈنگ میں بھی اردو نے نمایاں رول اداکیاہے،مگر اردو کی بدقسمتی یہی ہے کہ اس کو ایک طبقہ یا مذہب کی زبان کی طر ح تسلیم کیا گیا ۔شاہد صدیقی نے یہ بھی کہاکہ 1947سے بڑا برا دور اردوزبان کیلئے کوئی نہیں ہو سکتا ہے ،مگر 1950کے بعد کافی حالت بہتر ہوئے ، آج اردو کا ایک اہم مقام ہے اور اسکا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہا ہے۔ راشٹر یہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عبد الماجد نظامی نے اردو زبان کی ترویج واشاعت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قومی آواز کے بعد ’ روزنامہ راشٹریہ سہارا‘لانچ ہوا،یہ سہارا شری کی طرف سے ایک نا قابل فراموش کا رنامہ ہے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارااردو نے لوگوں کے دلوں میں ایک خاص جگہ بنائی اور پھر بعد میں اپیندررائے جی کی سرپرستی میں ہندوستان کااردوکاسب سے بڑا چینل عالمی سہارا کا افتتاح عمل میںآیا۔عبد الماجد نظامی نے مزید کہاکہ اردوصحافت نے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ، موجودہ وقت میں بھی بخوبی خدمت کر رہی ہے ، نئی نسل کو اردو سے جوڑنے کی مزید ضرورت ہے ۔راجیہ سبھاٹی وی کے سینئرجر نلسٹ راجیش پاٹھک نے کہاکہ اردو اپنے آپ میں ایک بہت بڑا مضمون ہے،اردو زبان میںگنگا جمنی تہذیب کا ایک بہت بڑا نمو نہ نظر آتا ہے اور ایک مٹھا س ملتی ہے ،اردو صحافت کی یقینی طور پر ایک تاریخ رہی ہے اوراسکی اپنی ایک اہمیت بھی ہے نیز آزادی سے قبل اردو زبان ہی تھی ،کیو نکہ وہی ایک زبان تھی ،مگر آج سیاست کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ہیں، اس میں پورا میڈیا متاثر ہوا ہے۔ را جیش پاٹھک نے مزید کہاکہ نظمی صحافت میں ریسرچ ہو نا چاہئے، یعنی یو نیورسٹی کو چاہئے کہ اردو جر نلزم میں نظمی صحافت کو بھی جوڑا جائے ۔سینئر صحافی قربان علی نے کہا کہ میں اردو صحافت کے 200سالہ جشن کے موقع پرتقریب منعقد کر نے پر پریس کلب آف انڈیا کے ذمہ داروں کو مبارکبا دپیش کرتاہوں۔
انہوں نے افسوس کے ساتھ بتایاکہ ملک کے بڑے بڑے لیڈران اردوزبان سیکھتے تو ہیں ، مگر جب اردو کو درجہ دلا نے کی بات کی جاتی ہے توعملی اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں۔قربان علی نے مزید کہاکہ سابق وزیر اعظم 10سال تک اردوزبان میں تقریریںکرتے رہے ، لیکن انہوں نے بھی اردو زبان کے فروغ کیلئے کوئی بہتر و مثبت قدم نہیں اٹھایا ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ ایسے میںضروری ہے کہ اردو زبان کو اسکا واجب حق دلا نے کیلئے سڑک سے سنسد تک لڑائی لڑی جائے۔صحافیہ روشنی سنگھ نے بتایا کہ آج بھی ہندوستان کا بہت سارا لٹریچر اردو زبان میں ہے ، یہی نہیں سکھوں کی مقدس کتاب بھی اردو میں ہی ہے اور یہ پوری طرح سے ایک ہندوستانی زبان ہے ، لیکن افسوس اردو کو مسلمانوں کی زبان بنا کر اسکے ساتھ سوتیلاسلوک کیا گیا ،جو واقعی افسوسناک ہے۔ صدارتی خطبہ میںپی سی آئی کے سربراہ اوماکانت لکھیرا نے کہاکہ اردو کے ساتھ ہر مقام پر ناانصافی کی جارہی ہے،مگرپریس کلب یقین دلاتا ہے کہ اس کو بہتر مقام دلا نے کیلئے ہر طرح سے تیارہے، کیو نکہ جو اردو زبان میںمواد ہے ، وہ کسی دیگر زبان میں نہیں ہے ۔اس دوران مسلم مجلس مشاور ت کے قومی صدر نوید حامد، سینئر صحافی احمد جاوید ، شیخ منظور ظہور ،راجیش بادل، سوشل ورکر ہدایت اللہ جینٹل ،خالد مُلا، صحافیہ ڈاکٹر ناہید ،ڈاکٹر عارف اقبال ،عرفان وحید ودیگر نے بھی اظہار خیال کیا۔نظامت کے فرائض بزرگ صحافی اے یو آصف نے بحسن وخوبی انجام دئے،جبکہ آخر میں مفتی شمس تبریز احمد قاسمی نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS