بہار میں اردو اور اقلیتی ادارے حاشیہ پر

0

ڈاکٹر سید احمد قادری

بہار میں برسر اقتدار حکومت کے قریب مانے جانے والے رہنماؤں کو اس بات کی شکایت ہے کہ نتیش کمار کی حکومت نے بہار کے اقلیتی طبقہ کی مالی، تعلیمی و سماجی ترقی کا ہر کام کیا لیکن مسلمانوں کا جھکاؤ جے ڈی یو کی جانب نہیں ہے ۔ شکایت کسی حد تک بجا ہے ، لیکن ایسا کیوں ہے ؟ ان پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ان وجوہات میں چند وجوہات پر میں توجہ دلانا اپنا فرض سمجھتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ریاست بہار میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یہ خصوصی درجہ بلا شبہ بہت مشکلوں سے لمبی لڑائی ، تحریک ،تگ و دو اور ایثار و قربانی کے بعد ملاتھا، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی مادری زبان اور زبان سے وابستہ شاندار روایات، تہذیبو تمدن، قدروں کی اہمیت و افادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس زبان میں موجود اپنے قیمتی اثاثہ اور اسلاف کی اہمیت اور افادیت سے استفادہ کریں،لیکن گزشتہ چند برسوں سے حکومت بہار کے متعصب نوکرشاہوں کی متعصبانہ کوششوں سے اردو زبان اور اقلیتی ادارے زبوں حالی کے شکار ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے حکومت کا دم بھرنے والی کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو اردو زبان اور اقلیتی اداراوں کی زبوں حالی کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں لیکن ان لوگوں کے سیاسی مفادات اور مصلحت پسندی نے ان کی زبان پر قفل ڈال رکھا ہے۔
میں بہار کے وزیر برائے اقلیت امور اور جے ڈی یو اقلیتی کمیٹی کے سربراہ کی اس بات سے متفق ہوں کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ایک ایماندار، با شعور ، سیاسی بصار ت اور بصیرت رکھنے والے سیاست داں ہیں ،جو ہمیشہ ہر طبقہ کے لئے فکر مند رہتے ہیں اور اپنے منصفانہ عمل سے حتی الامکان کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیتے ہیں۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کئی بار مختلف موقعوں پر وہ اپنی دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔
لیکن ادھر گزشتہ کئی برسوں سے ریاست بہار کے کئی اہم اقلیتی اور اردو زبان کے اداروں کی تشکیل نونہ ہونے کے باعث ان اداروں کی ساری کارکردگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سال جب حج کا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے تب معطل پڑی ریاستی حج کمیٹی کی تاخیر سے قدم اٹھاتے ہوئے تشکیل نو کی گئی ہے۔ تشکیل نو کے انتظار میں بہاراسٹیٹ مدر سہ بورڈ بھی ان دنوں تعطل کا شکار ہے ۔ پچھلی بار اس مدرسہ بورڈ کا چیئرمین ایک ایسے متنازع اور انتظامی امور سے نابلد شخص کو بنا کر اس کی ناقص کارکردگی کے باعث مسلسل بہار مدرسہ بورڈ منفی خبروں میں رہا جس کا خمیازہ بہار کے مدارس کو اٹھانا پڑا ہے ۔ اس بڑے نقصان کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست بہار کے محکمہ تعلیم نے بہار مدرسہ بورڈکے تین ضابطوں میں تبدیلی کرتے ہوئے اس ادارہ کی خود مختاری کو ختم کر نے کی منظم کوشش کی ہے ۔اس کوشش کے خلاف بہار کی اردو آبادی میں بہت زیادہ تشویش پائی جا رہی ہے اور کئی طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ نوکر شاہوں کی اس سازش کو سمجھتے ہوئے ریاست کے کئی علاقوں میں احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ چل رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے نئے ضابطے آئین کے منافی ہیں اور مدارس کے اقلیتی کردار پر حملہ کے مترادف ہے ۔ جب تک ان تین ضابطوں کی واپسی نہیں ہوتی ہے تب تک تحریک چلانے کا انتباہ کیا گیا ہے۔اس تعطل اور مدرسہ بورڈ کے بدلے جانے والے ضابطوں کے ضمن میں جنتا دل یو کے صوبائی اقلیتی سیل کے صدر اور قانون ساز کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر سلیم پرویز نے ایک میٹنگ کے دوران اقلیتی طبقہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہار مدرسہ بورڈ کے ضابطوں میں تبدیلی کے باعث جو تشویش اور خدشات ہیں ،ان سے وہ وزیر اعلیٰ کو آگاہ کریں گے ۔
بہار میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ایک خاص پہچان رکھنے والا ایک ہم ادارہ بہار اردو اکادمی بھی گزشتہ چار پانچ برسوں سے معطل پڑاہے، جس کے باعث بہار کی سطح سے فروغ پانے والی اردو زبان اور ادب کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ بہار کے ادیبوں، شاعروں و دانشوروں کے درمیان بہار اردو اکادمی کے اس تعطل سے خاصی ناراضگی پائی جا رہی ہے ۔ریاستی حکومت تک اردو زبان کے مسائل کے سلسلے میں مشورہ دینے کے لئے ایک بہت اہم ادارہ بہار اردو مشاورتی کمیٹی ہوا کرتی تھی۔جس نے پچھلے دور میںاپنی بے مثال کارکردگی سے پورے ملک کی توجہ مرکوز کرائی ہے۔ اس ادارہ سے کلیم عاجز، شفیع مشہدی اور عبد الصمد وغیرہ جیسی نامور شخصیات منسلک رہی ہیں، لیکن افسوس کہ بہار کا یہ اہم ادارہ بھی گزشتہ 5برسوں سے اپنی نئی اور متحرک زندگی کے لئے ترس رہا ہے۔ بہار کے قلب میں اشوک راج پتھ پر قائم قدیم گورنمنٹ اردو لائبریری بھی اس بات کی منتظر ہے کہ نئی کمیٹی تشکیل دے کر اس میں بھی نئی جان پھونکی جائے ۔ادارہ تحقیقات عربی و فارسی اور ایک بے حد قدیم اور ملک و بیرون ممالک میں اپنی شناخت رکھنے والا مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ بھی گزشتہ کئی برسوں سے اساتذہ اور پرنسپل کی خالی جگہوں کو کانٹریکٹ کے بجائے باضابطہ بحالی سے پُر نہیں کئے جانے کے باعث بے رونق اور ویران پڑا ہے ۔ افسوس کہ ہمارے اسلاف کی انتھک کوششوں سے تعمیر شدہ ان اہم اور تاریخی اداروں کا اس وقت کوئی پرسان حال نہیں۔
اردو زبان، جسے بہار کی دوسری سرکاری زبان ہونے کا دستوری حق حاصل ہے ، اسے بھی ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت حکومت بہار کی وزارت تعلیم نے ایک سرکولر نمبر : 799 بتاریخ :15؍ مئی 2020 جاری کرتے ہوئے اردو زبان کو میٹرک سطح سے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس اردو مخالف سرکولر کے خلاف بڑھتے احتجاج اور مظاہروں کو سرد کرنے کے لئے اس سرکولر میں ترمیم ضرور کی گئی لیکن بڑی چالاکی سے گھما پھرا کر معاملہ اسی طرح برقرار رکھا گیااور ترمیم کے بعد بھی اردو زبان کو لازمی زبان کے بجائے اختیاری زبان کی حیثیت دے کر ہائی اسکول کے اردو طلبا وطالبات کو اردو پڑھنے کے راستے کو روک دیا گیا ہے ۔ اب تصور کیجئے کہ بنیادی سطح سے ہی اردو ختم ہو جائے گی پھر انٹر میڈیٹ کلاسوں اور کالجوں و یونیورسیٹیوں میں اردو پڑھنے والے بچے کس طرح پہنچیں گے۔ اردو زبان کے تئیں ان متعصبانہ اقدام کے بعد اردو زبان کا حال بھی وہی ہوگا جو آج فارسی زبان کا ہو رہا ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ اس مذکورہ اردو مخالف سرکولر کو واپس لے کر سابقہ صورت حال کو بحال کیا جائے تاکہ اردو زبان کو آئینی اور دستوری حق اور انصاف مل سکے ۔ٹی ای ٹی کے تحت اردو اساتذہ کی بحالی کا معاملہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود التوا میں پڑا ہے ۔ اس جانب بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
بہار میں اردو زبان اور اقلیتی اداروں کی زبوں حالی سے بہار کے وزیر اعلیٰ کو واقف کرانے کی ذّمہ داری جے ڈی یو اقلیتی سیل کے ریاستی صدر اور قانون ساز کونسل کے سابق نائب چیئرمین ڈاکٹر سلیم پرویزنے لیتے ہوئے کہاہے کہ نتیش کمار اقلیتوں کے سچّے مسیحا ہیں۔ اس لئے توقع ہے وہ ضرور اس سلسلے میں پیش رفت کرتے ہوئے بہار میں تعطل کے شکار اردو اور اقلیتی اداروںکی تشکیل نو کرتے ہوئے یہ ثابت کریں گے کہ وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار اقلیتوں کے سچے مسیحا ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS