مہنگائی اورملک کے حالات

0

مہنگائی ملک کی وہ کڑوی حقیقت ہے، جس کا نہ اعتراف کیا جاتا ہے اورنہ اس سے انکار کیا جاتا ہے، لیکن ہوش ربامہنگائی اپنی رفتار سے مسلسل بڑھ رہی ہے ۔مہنگائی کے اعدادوشمار اورشرح چاہے وہ خردہ ہو یا تھوک جاری ہوتی رہتی ہے ۔ اس کے خلاف تھوڑی بہت آواز اپوزیشن کی طرف سے سنائی دیتی ہے،عام آدمی بھی آواز اٹھاتاہے، لیکن سرکار خاموش رہتی ہے ، جس کی وجہ سے مہنگائی کی رفتارکم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ ابھی 10دنوں کے اندر مہنگائی کے 2طرح کے اعدادوشمار جاری کئے گئے ۔12مئی کو خردہ تو 17مئی کو تھوک مہنگائی کے اعدادوشمار اوران دونوں کے درمیان 15مئی کوریزروبینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کے تعلق سے اعدادوشمار جاری کئے۔تینوں میں سے کوئی بھی رپورٹ ملک اورعوام کے حق میں بہتر نہیں ہے اورنہ ہی اس بات کے اشارے نظر آرہے ہیں کہ مستقبل قریب میں حالات بہتر ہوجائیں گے ۔مارچ میں کنزیومر پرائس پر مبنی خردہ افراط زرکی جو شرح 6.95تھی، وہ اپریل میں بڑھ کر 7.79 فیصد تک پہنچ گئی۔ تقریباً ایک فیصد کا اضافہ، جبکہ ریزروبینک کا ہدف 2-6فیصد کے درمیان رکھنے کا ہے ۔اس کا سیدھا اثرریپوریٹ پر پڑرہا ہے جسے اس ماہ کے اوائل میں آربی آئی نے 4 سے بڑھاکر 4.40فیصد کردیا ۔ ماہرین اقتصادیات کا تویہ بھی کہنا ہے کہ مہنگائی کا جو حال ہے اس سے ریپوریٹ میں اوراضافہ ہوسکتا ہے ۔بتایا جاتاہے کہ اس وقت خردہ افراط زرکا بہت زیادہ دبائوہے ۔خردہ افراط زر کیاتھوک مہنگائی کا حال بھی برا ہے ۔ ہول سیل پرائس انڈیکس پر مبنی سالانہ بنیادپر افراط زر کی جوشرح گزشتہ سال اپریل میں 10.74 فیصدتھی وہ امسال مارچ میں بڑھ کر14.55فیصد اوراپریل میں 15.08فیصد ہوگئی ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہنگائی کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب بھی مہنگائی کے اعدادوشمار جاری کئے جاتے ہیں ، اس کے اسباب بتائے جاتے ہیں۔ یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ خوردنی وغیرخوردنی اشیا، ایندھن،قدرتی گیس اورکیمیکلز کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے لیکن ان اسباب کو دورکرنے یا مہنگائی کم کرنے کے اقدامات نہیں کئے جاتے بلکہ مہنگائی بڑھانے والے اقدامات ہی نظر آتے ہیں ۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے ۔جو 6مئی کو ختم ہونے والے ہفتہ میں مسلسل 9ویں ہفتے گرتے ہوئے 1.8ارب ڈالر کم ہوکر 595.9ارب ڈالر پر آگیا۔ روپے کی حالت خراب ہے۔ ڈالر تقریباً ساڑھے 77روپے کا ہوگیا۔ بازار کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔غرضیکہ کہیں سے امیدکی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں اور کمپنیاںاپنی اشیاکی کم فروخت سے۔ایسے میں کمپنیوں نے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے۔ وہ اپنے پروڈکٹس کی قیمتیں تو نہیں بڑھارہی ہیں لیکن پیکٹوں کا وزن ضرورکم کررہی ہیں۔لوگ قیمت پہلے والی اداکررہے ہیں لیکن سامان کم مل رہاہے ۔سرکارکو اس کھیل کا علم ہے اورٹیکس کے لئے ہر چیز اس کی نظروں سے گزرتی ہے لیکن عام آدمی اس کو نہیں سمجھ پارہا ہے۔اس طرح مہنگائی کی مار ہر طرف سے عام لوگوں پر پڑرہی ہے ۔امیروں یا سرمایہ کاروں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑرہا ہے، جن کی دولت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔کورونا کے دور میں سرکار یہ کہہ کر آگے نکل جاتی تھی کہ ملک کی معیشت اوراقتصادی حالات کوروناکی وجہ سے خراب ہوئے ہیں اوراب روس۔ یوکرین جنگ کوذمہ داربتاکر سپلائی چین متاثر ہونے کی بات کہی جارہی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کورونا اورروس۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے معیشت خراب ہوئی، لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اگر معاشی بدحالی ہے تو صرف عام لوگوں کی جیبیں کیوں خالی ہورہی ہیں ؟
ملک میں مہنگائی اوربے روزگاری کا یہ حال اس وقت ہے جب پڑوس میں واقع سری لنکا کا حشر ہمارے سامنے ہے ۔جو ان ہی حالات اورایشوز سے گزرا تھا جوآج ہندوستان میں ہیں۔ وہاں بھی بنیادی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے جذباتی اورمنفی ایشوزکی سیاست ہوتی تھی اورکام کئے جاتے تھے ۔لوگ ان میں مدہوش رہتے تھے۔جب آنکھیں کھلیں تو پیروں تلے سے زمین اس قدر کھسک چکی تھی کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ لوگ سڑکوں پر آگئے اورحکومت کو فرار اختیارکرنا پڑا۔جذباتی اورمنفی سیاست کا وقتی سیاسی فائدہ تو ہوتا ہے اورلوگ بھی فریب میں آ تے ہیںلیکن آخرکار اس کی بہت بڑی قیمت ملک وقوم کو چکانی پڑتی ہے ۔ہمیں سری لنکا سے سبق حاصل کرنا چاہئے، ورنہ حالات بدسے بدتر ہوتے جائیں گے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS