یوگیندر یادو
میں آج تک پر انٹرویو دے رہا تھا۔ وہ ہندی کا آزاد چینل تھا جس کو آنجہانی سریندر پرتاپ سنگھ جن کو لوگ پیار سے ایس پی بلاتے تھے، قائم کیا تھا۔ میں کبھی کبھار ہی اس چینل پر دکھائی دیتا ہوں۔ عام طور پر میں کئی وجوہات سے انگریزی کے چینلوں میں مدعو کیا جاتا ہوں۔ کیونکہ ہندی کے چینل مجھے نہیں بلاتے ہیں۔ نہ الیکشن کے تجزیات کے لیے جس میں ماہر تھا۔ نہ ہی کسان تحریک کے دوران جس میں کافی سرگرم تھا۔ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے۔ مجھ پر ایک قسم کا غیر اعلانیہ بین تھا۔ میں اس بات کی تصدیق نہیں کرسکتا ہوں۔
جس پروگرام میں مجھے بلایا گیا تھا۔ وہ کرناٹک کے الیکشن پر تھا۔ چینل کی اسکرپٹ بالکل واضح تھی اور بتایا جارہاتھا کہ کانگریس نے سماج کو تقسیم کرنے والا او بی سی کارڈ کھیلا تھا۔ کیونکہ راہل گاندھی نے جس طریقے سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا دفاع کا معاملہ اٹھایا تھا۔ بڑا مشکل تھا اس پیغام کو نظراندازکرنا۔ یہ وہ مسیج تھا کہ جو غیر اعلانیہ تھا۔ بی جے پی نہ صرف یہ کہ اپنی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے ہاری تھی بلکہ اس کے پس پشت گندی سیاست بھی کارفرما تھی۔ جو کہ قومی سطح پر ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کی شکل میں سامنے آئی۔ جبکہ میں نے بالکل اس موقف سے برعکس نظریہ پیش کیاتھا۔ اس مذاکرے میں اینکر نے سامعین کو کئی بار دیا دلایا کہ ایک زمانے میں 20میں سے 13 وزرائے اعلیٰ برہمن ہوا کرتے تھے۔ نہ تو ان وزراء اعلیٰ کی کسی دوسری خصوصیت یا عدم خصوصیت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور سیدھے سیدھے آپ کے سامنے یہ کہا گیا تھا کہ یہ برہمنوں کی بالادستی کی بات تھی۔
اور جب گندہ نالا بہہ اٹھا
جب اپنی رائے دینے کی بارے میں آئی تو میرے ذہن میں صرف ایس پی کی ہی امیج تھی ۔ ایس پی مشرقی اترپردیش کے ایک راجپوت خاندان میں پیداہوئے تھے۔ مگر ان کی پرورش کلکتہ میں ہوئی تھی۔ وہ ذات پات میں انصاف پسندی کے حامی تھے اور وہ اکثر ان معاملوں میں رپورٹ فائنل کرتے ہوئے اگر کوئی رپورٹر غیر مناسب زبان استعمال کرتا تو ان کو ٹوک دیتے تھے۔ مجھے یادہے کہ انہوںنے کس طرح سے آج تک کے ابتدائی ایام میں ایک ایسے نیوز روم کا تصور پیش کیا تھا جس میں مختلف طبقات کے لوگ موجود تھے۔
ظاہر ہے کہ جب اینکر نے مجھے اس طریقے سے بات کی تو مجھے غصہ آجانا چاہیے تھا۔ مگر میں اپنے آپ کو چار نکات میں پابند رکھا۔ میں نے پہلے نکتے میں بتایا کہ ملک کی صرف تین فیصد آبادی کا کسی بھی مہذب سماج میں دبدبہ حاصل کرلینا فکر مندی کی بات ہے اور اس پر تو کسی کو فخر ہی نہیں ہونا چاہیے۔ نمبر دو آج تک کے خود کے ایگزٹ پول نے بہت بہتر طریقے سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ او بی سی کا ایک بڑا طبقہ کانگریس کی طرف جھکائو رکھتا ہے۔ تیسرے یہ بی جے پی خود ذات پات پر مبنی سیاست میں یقین رکھتی ہے اور کاسٹ پر مبنی ووٹ بینک جو کہ دکھائی نہیں دیتا اس کے تئیں وفادار ہیں اور اس طبقے کو وہ دو مرتبہ پیدا ہونے والا ہندو قرار دیتی ہے۔ چوتھی بات یہ جو میں نے کہی تھی کہ وہ یہ تھی کہ اپوزیشن جو ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کررہی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2010میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی حمایت کی تھی اور اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے 2018میں اس مطالبے پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہاں پر میں شکر یہ ادا کرنا چاہوں گا کہ چینل کا جس نے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔ اس شوبعد کے میں نے اپنی کلپ جو آج تک پر نشر ہوئی تھی اپنی ٹوئٹ میں شیئر کی اور اس میں بہت ہی نپے تلے الفاظ میں ٹی وی چینل کے برہمنوں کے تئیں جھکائو پر نکتہ چینی کی تھی۔ اس ٹوئٹ میں میں نے اینکر کے بارے میں ایک لفاظ نہیں بولا تھا۔ میں ان کے بارے تھوڑا ہی جانتا تھا۔
اس کے بعد ایسا لگا کہ گندے پانی کا نالا بہہ گیا ہو۔ اینکر کا رد عمل بالکل الگ انداز کا تھا۔ میرے حقائق اور دلائل میں کوئی رد عمل نہیں آیا۔ بلکہ مجھے برا بھلا کہا جانے لگا۔ بس ایک غلیظ کی گالی ہی کمی رہ گئی تھی۔ مجھے نفسیاتی طور پر ایک ناکام ،سیاسی طور پر ناکام، سیاسی طور پر فیل، موقع پرست اور حیرت انگیز تک قوم دشمن قرار دے دیا گیا۔ مجھے یاد ہے دو سال پہلے انڈیا ٹو ڈے گروپ نے شیام میرا سنگھ کو اپنی گروپ کی میڈیا پالیسی کی پیروی نہ کرنے پر ٹرمینٹ کردیا تھا۔ انڈیا ٹو ڈے نے اپنے ملازمین سے کہا تھا کہ وہ اپنی پوسٹ کو صرف خبروں تک محدود رکھیں اور اس میں گالی گلوج کا استعمال نہ ہو۔ مگر یہ ہدایت نامہ صرف وزیراعظم نریندر مودی کو کسی بھی منفی رد عمل سے محفوظ رکھنے تک محدود رہا۔
اس کے بعد تو ہر شخص آزاد ہوگیا تھا بہت سے سوشل جسٹس کا دفاع کرنے والے میدان میں کود گئے اوران میں میرے پرانے دوست دلیپ منڈل جو کبھی کبھی دشمن بھی ہوجا یا کرتے ہیں ، بھی شامل تھے۔ پھر کئی چینل اور اینکر بھی ممبران آگئے ۔ ظاہر ہے کہ وہ ٹھیک آئے۔ آخر معاملہ برہمنوں کی بالادستی کا تھا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اینکر کے لیے بھی کچھ نامناسب جملے استعمال کیے گئے۔ مجھے اس پر افسوس ہوا۔ مجھے برہمن مخالف قرار دے کر کئی گندے الفاظ والقاب سے نوازا گیا۔ (یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ میں نے برہمنوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا) (کیونکہ میں یادو تھالہٰذا عوامی سطح پر میرے خلاف میری ذات کو لے کر جو الفاظ استعمال کیے گئے تھے، شاید ان کی اجازت تھی )شاید میرے بچپن کے نام کو پکارا گیا ۔ یہ الزام ایک جرنلسٹ نے لگائے تھے۔ میںنے رد عمل ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں مجھے لگا کہ ایسا کرنا فضول ہے۔
ہندی جرنلزم پر ایک کتاب
ایک سوال میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ ہندی جرنلزم خاص طور پر ٹیلی ویژن کی ہندی جرنلزم اس درجہ کیوں گر گئی۔ اگر ایس پی ہوتے تو یہ سوال میںان سے پوچھتا جنہوںنے اپنے کریئر کا آغاز بطور ٹرینی کے شروع کیا تھا اور وہ آ ج تک کے چینل کے سربراہ کے عہدے تک پہنچے مگر افسوس کہ وہ اس دنیا سے بہت جلدہی چلے گئے۔ ان کا انتقال آج تک کے مکمل چینل بننے سے قبل ہی ہوگیاتھا۔
اس سوال کے جواب کے تلاش میں میں نے مرنال پانڈے کی کتاب میں تلاش کرنا شروع کیا۔ مرنال پانڈے اس قماش کی خاتون صحافی ہیں جو اب ہندی صحافت میں مفقود ہوتے جارہے ہیں۔ وہ ایک با وقار خاتون ایڈیٹر تھیں اور ہندی روزنامہ ہندوستان دینک کی پہلی ایڈیٹر بنی تھیں۔ ان کی کتاب ہے ’ ہندوستان میں ہندی صحافت کا سفر‘راج سے سوراج اور آگے تک ‘یہ کتاب ان کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے جو انہوںنے ہندی میڈیا میں محسوس کی جو اس زمانے کی ہے جو ابتدا میں شائع ہوتی تھی اور آج کے دور کے ٹیلی ویژن میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا تک انہوںنے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ زوال کی یہ کوئی افسوسناک کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ہندی میڈیا کے عروج اور عروج کے بعد کے زوال کی کہانی ہے۔ مرنال پانڈے بتاتی ہیں کہ ہندی میڈیا نے سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کی او راقتصادی بدحالی کو جھیلا اور اس کے بعد ثقافتی طور پر دست نگرتک رہی آج ہندی صحافت کے نقوش اقتدار اس کا اثروروسوخ اور مالی فائدہ پر دکھائی دے رہے ہیں۔ انل پانڈی نے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح ہندی صحافت نے عالمی صحافت کی اس ٹرینڈکا مقابلہ کیا اور جدوجہد میں انگریزی سے آگے پہنچ گئی۔ انگریزی کو پیچھے چھوڑ دیا اور آج اس کے پاس وہ اثرورسوخ آگیا ہے جس کی وہ حقدار تھیں۔
یہ کہانی پھر میرے اس سوال اور گہرا کرتی ہے کہ جب یہ انڈسٹری اتنا عروج دیکھ چکی ہے تو اس کے پیشہ وارانہ معیارات کو بہتر ہوجا نا چاہیے۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح ٹیکنیکل اسٹنڈرڈ نے نیوز انڈسٹری کو بہتر بنایا۔ چاہے وہ ڈیزائن کا معاملہ ہو، فونٹ کا معاملہ ہو یا چھپائی یا اشتہارات کا معاملہ ہو لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیوں صحافت کے معیار خبروں اور نظریات میں یہ زوال کیوں کر آیا۔ مجھے یقین ہے کہ ہندی، انگریزی اور دوسری زبانوں کی جرنلزم بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ ہندوستان کے باہر بھی معیار میں گراوٹ آئی ہے مگر ایسی گراوٹ نہیں ہے مگر اتنی گراوٹ نہیں ہے جتنی گراوٹ ہندوستان میں نظر آئی ہے۔ یہ کتاب میرے سوالات کا جواب نہیںدیتی ہے مگر وہ عالمی میڈیا میں سنسنی خیزی اور جانبداری یا ایک طبقہ کی بالادستی جیسے بڑے سوالات پر روشنی ڈالتی ہے ۔ خاص طور پر وہ نظریات جو کہ جرمن کے مفکر یورگن ہر برمیس سے اخذ کیا گیا ہے۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مذکورہ کتاب ہندی نیوز روم کے سماجی سیاق سباق کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ پانڈے اس طرف توجہ دلاتی ہیں کہ ٹی وی چینل اس وقت کچھ بہتر کرتے ہیں جب خواتین کی موجودگی اچھی ہوتی ہے کیونکہ یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ سامعین اورناظرین ، نوجوان اور خوبصورت اینکر س کو پسند کرتے ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ انہوںنے ہندی نیوز روم میں ذات پات کی نمائندگی کی طرف توجہ دلائی۔ اس میں کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ ہندی میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن ، ہندو اعلیٰ ذات کا خاص طور پر دبدبہ ہے۔ اس معاملہ میں انگلش کے مقابلے میں ہندی میڈیا کی حالت زیادہ خراب ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ سماجی ماحول جو برہمنوں کے سیاسی اقتدار سے معرض وجود میں آتا ہے۔ اس بابت میڈیا کے ایک مبصر ارملیش کا کہنا ہے کہ میرے خلاف آج تک پر جو تبصرہ آیا اس سے ان کو حیرت نہیں ہوئی۔ کیونکہ ٹیلی ویژن جرنلزم اعلیٰ ذات کے غلبے کا معاملہ ہے وہ کسی بھی اس شخص کے ساتھ بحث کے لیے تیار ہیں جس کی رائے ان سے الگ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا میں جو کام کرتے ہیں اور اہم فیصلوں میں جو لوگ اہم رول ادا کرتے ہیں یعنی ٹی وی کی دنیا ٹی وی پورم میں اس ذات کے کتنے لوگ ہیں۔ میں آج تک میں بھی اس بابت اعداد وشمار کو دیکھنا چاہوں گا۔ لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ اس کام کے لیے مجھے نہیں بلایا جائے گا۔
ہندی چینلوںمیں اعلیٰ ذات کی بالادستی؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS